ٹرمپ اور شی جن پنگ کے محبت بھرے تعلقات اور تنازعات: ٹرمپ کا دوسرا دور چین کے لیے کس طرح کا ہوگا؟
بیجنگ میں سرخ دیواروں اور نیلی رنگ کی اینٹوں والے 'ٹیمپل آف ہیون' کے ساتھ ہی واقع ایک سپورٹس پارک میں 'پینشنرز' کا ایک گروپ جسمانی ورزش میں مگن ہے۔
ورزش مکمل کرنے کے بعد ایک شخص نے کہا کہ 'میں 74 برس کا ہوں، اور مجھے امید ہے کہ یہ (ورزش) مجھے تا دیر زندہ رکھے گی۔'
صنوبر کے درختوں کے پتوں سے ٹھنڈی ہوا ٹکرا رہی ہے، جس سے سر کے بل ورزش کرنے والے شخص کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ خواتین ورزش کے بعد اپنے دستانوں اور سویٹرز پہننے آ جاتی ہیں۔
چین کے بادشاہ ایک بار مِنگ خاندان کے مقدس مقام پر آئے تھے اور انھوں نے اچھی فصل کے لیے دعا مانگی تھی۔ چین کی ترقی میں دہائیوں کردار ادا کرنے کے بعد یہاں کے رہائشی اب اس پارک میں ریٹائرمنٹ کے بعد لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں۔
انھوں نے اپنے ملک کو عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے اور ملکی معیشت کی بڑھتی ہوئی دیکھی ہے، جو اس سب کی بدولت دنیا کے سب سے بڑے ترقی یافتہ ملک امریکہ کی برابری بھی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اب ان میں سے کچھ افراد کو امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان وعدوں پر عمل کا ڈر ہے، جس میں انھوں نے یہ عزم کیا تھا کہ وہ چینی اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کریں گے، یوں اس کا براہ راست چین کی برآمدات پر اثر پڑے گا جس کا چین کی معیشت میں اہم کردار ہے۔
چین میں ٹرمپ سے متعلق پائے جانے والی رائے
چین میں بہت سے لوگوں کے لیے ٹرمپ محض ایک تفریحی کردار ہیں اور یہاں سوشل میڈیا پر ان کے ڈانس کی میمز بھی شیئر کی جاتی ہیں۔ ایک 74 برس کے پینشنر جن کا نام یہاں ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے نے کہا ہے کہ 'مجھے ٹرمپ اچھے لگتے ہیں۔ مگر وہ عدم توازن کا شکار ہیں۔ کون جانتا ہے کہ وہ کیا کر گزریں؟'
اپنے انتخاب کے بعد ٹرمپ نے جس طرح اپنی کابینہ میں نامزدگیاں کی ہیں اس سے لوگ اب مزید پریشان ہیں۔
ٹرمپ نے وزیر خارجہ کے لیے مارکو روبیو کو نامزد کیا ہے، جنھوں نے اپنے پہلے ہی ایک بیان میں بیجنگ کو ایک ایسا خطرہ قرار دے رکھا ہے جو اس صدی کی سمت کا تعین کرے گا۔
ٹرمپ نے مائیک والٹز کو قومی سلامتی کا مشیر نامزد کیا ہے جنھوں نے اس ماہ کے آغاز میں یہ لکھا تھا کہ امریکہ کو فوری طور پر یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ختم کروا کر بالآخر اصلی خطرے کی طرف یعنی چین کی کمیونسٹ پارٹی کو قابو کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
لندن میں چیٹھم ہاؤس کے سینیئر ریسرچ فیلو یو جیئ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار کے لیے چین ابھی سے تیاری کر رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کے تحفظات کے باوجود ٹرمپ کی واپسی چین کے لیے کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ جب جنوری میں ٹرمپ اقتدار میں آ جائیں گے تو دنیا دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے لیے تیار رہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئل ریفائنری، ریڈار اور پارچین عسکری سائٹ: سیٹلائیٹ تصاویر اسرائیلی حملوں کے شواہد ایران میں کیا ظاہر کرتی ہیں
’بیجنگ کی سرد جنگ واشنگٹن کے لیے ایک وارننگ ہے‘
ٹرمپ کی جیت سے بہت پہلے ہی چین اور امریکہ کے درمیان مسابقت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں ان تعلقات میں خاص طور پر چینی اشیا پر ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے اور یوکرین جنگ اور تائیوان کے مستقبل سے متعلق جیسے ’جیوپولیٹکل‘ عدم اتفاق سے زیادہ تناؤ دیکھنے میں آیا۔
اس سب کے باوجود دونوں ملکوں میں بات چیت بھی جاری رہی۔ امریکہ کے متعدد سینیئر اہلکار بیجنگ گئے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے جو بائیڈن کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں واشنگٹن کو اس پر بھی خبردار کیا کہ ’نئی سرد جنگ نہ لڑی جائے اور یہ کبھی جیتی نہیں جا سکے گی۔‘
انھوں نے یہ کہا کہ ’چین کا راستہ روکنا غیردانشمندانہ، ناقابل قبول اور ناکامی کا راستہ ہوگا۔‘ بیجنگ طویل عرصے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ’چین کا راستہ روکنے‘ کا الزام عائد کرتا آ رہا ہے۔ چینی اشیا پر ٹیرف کے نفاذ، جدید اے آئی چپس تک رسائی میں رکاوٹوں اور ساؤتھ چائنا سی اور اس کے علاوہ بننے والے فوجی اتحادوں کو بھی چین اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ سب اس کا راستہ روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ایشیا سوسائٹی سینٹر فار چائنا کے لائل مورس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے روبیو اور والٹز جیسے ناموں کو کابینہ کے لیے چننا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ چین کی طرف زیادہ سخت اور تناؤ والی حکمت عملی اختیار کرے گی۔
ان کے مطابق ’جہاں ایک طرف ٹرمپ کے صدر شی کے ساتھ ذاتی تعلقات والی بات ہے تو وہ مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کے کام آئے گی مگر ممکنہ طور پر ٹرمپ اپنے وزیر خارجہ اور مشیر برائے قومی سلامتی کے ساتھ نرمی سے ہی پیش آئیں گے جس کا مطلب چین سے متعلق امریکہ کی پالیسی انتہائی سخت ہو گی۔‘
یہ دونوں نئے نامزد حکام چین کو امریکی سلامتی اور اس کی معیشت کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس پارک میں موجود 74 برس کے معمر فرد نے ورزش میں ایک وقفے کے دوران بتایا کہ ’آپ اس وقت امریکہ کی نسبت یہاں بہت بہتر ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: بچوں کی پیدائش کے بعد شوہرکا اپنی بیوی کا چچا ہونے کا انکشاف، شادی ختم ، تفصیلات ایسی کہ یقین کرنا مشکل ہوگیا
کورونا وائرس کے پھیلاؤ جیسے الزامات سے لے کر جوہری ہتھیاروں کی مسابقت تک
ٹیمپل آف ہیون کے شمال میں شہر ممنوعہ واقع ہے، جہاں چین کا شاہی خاندان تقریباً پانچ صدیوں تک مقیم رہا۔ سنہ 2017 میں یہاں صدر شی نے ٹرمپ کی میزبانی کی تھی۔ یہ اعزاز چین کے قیام سے آج تک کسی اور امریکی صدر کو حاصل نہیں رہا۔
صدر شی نے اس علاقے کو عام عوام کے لیے بند کروا دیا تھا اور انھوں نے صدر ٹرمپ کو یہاں کا دورہ کروایا تھا۔ اس دورے کی براہ راست ٹی وی پر لمحہ بہ لمحہ کوریج ہوئی تھی۔ ٹرمپ کو یہاں شام کے کھانے میں کنگ پاؤ چکن پیش کیا گیا تھا۔ اس دوران ان کی نواسی ارابیلا کشنر کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ ایک چینی گانا گنگنا رہی تھیں۔
اسے دونوں اطراف سے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا عروج قرار دیا گیا تھا۔ مگر سنہ 2019 میں یہ تعلق اس وقت تلخی میں بدل گیا جب چینی شہر ووہان سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا اور پھر یہ سنہ 2020 میں دنیا بھر میں پھیل گیا۔ ٹرمپ نے بار بار اسے ’چینی وائرس‘ کہا۔
ٹرمپ نے تجارت میں بھی ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘ والی جنگ کا آغاز کیا اور چینی اشیا پر 300 بلین ارب ڈالر کا ٹیرف کا نفاذ بھی کیا۔
جب ٹرمپ اپنے دوسرے دور کا آغاز کر رہے ہوں گے تو ان کا سامنا ایک مضبوط صدر شی سے ہو گا، جو تیسری بار چین کے صدر بنے ہیں اور اب ممکنہ طور پر وہی تاحیات چین کے سربراہ ہوں گے۔
چین کے پاس پہلے سے ہی دنیا کی سب سے بڑی بّری اور بحری فوج ہے اور اب واشنگٹن اس بات پر بھی پریشان ہے کہ چین اب سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی بنا رہا ہے۔ جب ٹرمپ اپنی کابینہ کے ناموں کا اعلان کر رہے تھے تو عین اسی وقت چین کے سرکاری میڈیا نے ایک ویڈیو نشر کی جس میں ملک کے سب سے بڑے ائیر شو میں نئے برق رفتار جنگی طیارے جے 35 اے کو دکھایا جا رہا تھا جو کبھی سیدھا اوپر آسمان کی طرف اور کبھی اوپر سے زمین کی طرف تیزی سے رخ کرتا تھا۔
امریکہ کے بعد چین دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کے اپنے بیڑے میں دو برق رفتار جنگی طیارے موجود ہیں۔ دنیا کے پہلے دو برق رفتار جنگی طیارے جے 20-ایس بھی نمائش میں موجود تھے۔
گذشتہ ہفتے کیلیفورنیا کے ’مڈلبری انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز‘ کے محققین نے ایسی سیٹلائٹ تصاویر دیکھی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین ایک نئے طیارہ بردار بحری جہاز کے لیے جوہری ’پروپلشن‘ پر کام کر رہا ہے۔
کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے تونگ ژاؤ کا کہنا ہے کہ مطالعات سے چین کی ’فرسٹ یوز پالیسی‘ یعنی خطرے کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی حکمت عملی اختیار کرنے سے اور جوہری خطرات میں اضافے پر سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
ان کے مطابق ’جب تک ٹرمپ خود اس میں دلچسپی نہیں لیتے جس کے امکان کم ہیں تو اس وقت تک دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کی شدید مسابقت کے دھانے پر آ جائیں گے، جس کے عالمی استحکام پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: (ن) لیگ چھوڑنے کی خبروں پر خواجہ سعد رفیق کا مؤقف بھی سامنے آ گیا
تائیوان تنازع
صدر شی کی قیادت میں حالیہ برسوں میں چین اب ساؤتھ چائنا سی اور تائیوان کا اپنا حصہ ہونے کے دعوؤں میں مزید جارحانہ انداز اختیارکر گیا ہے۔ اب ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ چین نے تائیوان پر فوجی حملے کی بھی تیاری شروع کر رکھی ہے، جسے چین اپنے ہی ایک علیحدہ ہو جانے والے صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جو بالآخر اس کے زیر انتظام آ جائے گا۔
کیا ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ہوتے ہوئے امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا؟
یہ سوال ہر امریکی صدر سے پوچھا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے اس سوال پر مختلف جواب دیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ وہ فوجی طاقت کا استعمال نہیں کریں گے کیونکہ شی جانتے تھے کہ وہ ’پاگل‘ ہیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو وہ سزا کے طور پر چینی درآمدات پر انتہائی سخت ٹیرف عائد کریں گے۔
غیر ملکی جنگوں میں حصہ نہ لینے سے متعلق ٹرمپ کے بیانات کے باوجود زیادہ تر ماہرین کو یہ امید ہے کہ واشنگٹن تائی پے کو فوجی امداد فراہم کرتا رہے گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ قانونی طور پر بھی اس جزیرے کو دفاعی ہتھیار فروخت کرنے کا پابند ہے۔ دوسرا، ٹرمپ انتظامیہ نے اب تک کسی بھی انتظامیہ سے زیادہ تائیوان کو اسلحہ فروخت کیا ہے۔
لائل مورس کا کہنا ہے کہ تائیوان کو فوجی امداد جاری رکھنے کے لیے مضبوط دو طرفہ حمایت موجود ہے۔ ان کے مطابق، 'میں یہ توقع نہیں کرتا کہ ٹرمپ تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کے سلسلے میں کوئی خاص تبدیلی لائیں گے۔'
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی سالگرہ ، کتنے برس کی ہو گئیں ؟
ٹرمپ کی شی جن پنگ سے متعلق کیا رائے ہے؟
اختلافات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ چینی صدر شی جن پنگ کے مضبوط حکمران کے تاثر کے معترف ہیں۔ سنہ 2020 میں تلخ تجارتی تعلقات کے باوجود انھوں نے یہ بیان دیا تھا کہ وہ اور شی جن پنگ 'ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔'
وال سٹریٹ جرنل کو ایک حالیہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ میرے ان (چینی صدر شی) کے ساتھ بہت مضبوط تعلقات ہیں۔'
ابھی یہ جاننا مشکل ہے کہ صدر شی کیا سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات پر بہت کم بات کی ہے اور شاید ہی کبھی انھوں نے ٹرمپ کا نام لیا ہو۔
سنہ 2018 میں چین کے سرکاری میڈیا سی جی ٹی این نے امریکی سربراہ پر براہ راست بات کی اور ان کی ایک مزاحیہ ویڈیو جس کا عنوان تھا 'تھینکس مسٹر ٹرمپ، یو آر گریٹ!' نشر کی۔ بعدازاں یہ ویڈیو ہٹا دی گئی تھی۔
ابھی تک ہم جو جانتے ہیں وہ یہی ہے کہ دونوں رہنما قومیت پرستی کے قائل ہیں۔ صدر شی 'چینی قوم کی عظیم تجدید نو' کا عزم کیے ہوئے ہیں جبکہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے صدر ہیں جو 'امریکہ کو دوبارہ عظیم بنا سکتے ہیں۔'
دونوں ہی یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ اپنے ممالک کو ایک نئے سنہرے دور کی طرف لے جانے پر لگے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کا سنہرے دور میں چینی اشیا پر 60 فیصد تک ٹیرف عائد کرنا شامل ہے۔ مگر بیجنگ اب کسی اور تجارتی جنگ میں جانے کے موڈ میں نہیں ہے، اس کے پاس اپنی پریشانیاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: What Happens When the Judiciary Validates Martial Law? Are Judges Not Bound by the Constitution? – Chief Justice
ایک سست رفتار معیشت بمقابلہ ایلون مسک
صدر شی کا خوشحالی کا خواب ایک مشکل میں ہے۔ چین کی معیشت سست روی کا شکار ہے۔ اس کا پراپرٹی سیکٹر دیوالیہ ہو رہا ہے۔ چین کے 20 فیصد نوجوان ابھی روزگار کی تلاش میں ہیں اور ملک کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہے۔
ٹیمپل آف ہیون میں ہم ایک چینی گروپ کے ساتھ ہو گئے جو اس شہر کے سفید ماربل کے دروازوں سے گزر رہا تھا۔ یہاں نوجوانوں میں خاص شاہی خاندان والا لباس پہننا ایک فیشن بن گیا ہے۔
اس شہر کے دورے کے دوران، درجنوں سکولوں کے طلباء تاریخ سننے کے لئے گائیڈ کے ساتھ موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک درمیانی عمر کی خاتون، جو کالے لباس میں ملبوس تھیں، ایک خاص طریقے سے عبادت کر رہی تھیں۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ کس چیز کی دعا کر رہی ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ یہاں بہت لوگ اپنے بچوں کی ملازمتوں اور اچھی تعلیم کے حصول کے لیے دعا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، 'ہم ایک خوشحال زندگی کے لئے دعاگو ہیں۔' اگرچہ چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے غربت کا خاتمہ کر دیا ہے، مگر ملک بھر میں لاکھوں مزدور اور فیکٹری ورکرز، جو چین کی ترقی میں حصہ دار ہیں، پریشان ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔
چین کا مستقبل، اور اس کی معیشت کا مستقبل، ممکنہ طور پر اس بات پر منحصر ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ چینی مال پر کتنے سنجیدہ ہیں۔ یو جیئ کے مطابق، اس دفعہ بیجنگ ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'چین نے پہلے ہی اپنے زرعی درآمدات کے ذرائع کو متنوع بنانا شروع کر دیا ہے، خاص طور پر برازیل، ارجنٹائن اور روس سے، اور غیر امریکی اتحادی ممالک میں اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے۔ حالیہ مقامی حکومت کے قرضوں کی دوبارہ سرمایہ کاری بھی ممکنہ تجارتی جنگ پر منفی اثرات کو کم کر رہی ہے۔'
بیجنگ کو ایک اور امید بھی ہو سکتی ہے۔ ایلون مسک، جو اب ٹرمپ کے قریبی ساتھی ہیں، کی کمپنی ٹیسلا چین پر انحصار کرتی ہے۔ ان کی تمام الیکٹرانک گاڑیوں کا تقریباً نصف حصہ چین میں تیار ہوتا ہے۔ چینی رہنما اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ کیا ایلون مسک ٹرمپ کی تجارتی پالیسی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
لیکن 21ویں صدی کی بڑی طاقتوں کی دوڑ صرف تجارت تک محدود نہیں ہے۔ صدر شی کا خواب یہ ہے کہ چین دنیا کی غالب طاقت بن جائے۔ کچھ ماہرین کے مطابق، یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ کا ایک اور دور چین کو ایک موقع فراہم کر سکتا ہے۔
چین کا دنیا میں مقام
یو جیئ کہتی ہیں کہ 'چینی رہنما چین کو ایک ذمہ دار اور پراعتماد عالمی طاقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ بیان دیں گے کہ امریکہ عالمی عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب ہے۔'
امریکی صدر جو بائیڈن نے پورے ایشیا میں جنوبی کوریا، جاپان، فلپائن اور ویتنام کے ساتھ دوستی قائم کرنے میں چار سال گزارے، جو کہ چین پر قابو پانے کی کوشش تھی۔
ماضی میں ٹرمپ کے 'امریکہ پہلے' کے نظریے نے ان امریکی اتحادوں کو کمزور کیا، جس کی وجہ سے نازک سفارتکاری کو نقصان پہنچا اور اس سے امریکہ کا بین الاقوامی مقام متاثر ہوا۔
سنہ 2018 میں، امریکہ نے جنوبی کوریا سے فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کا مطالبہ کیا۔ بیجنگ پہلے ہی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اتحاد بنا چکا ہے، اور وہ جنوبی کوریا اور جاپان کے تاریخی شکایات کو حل کرتے ہوئے برطانیہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اگر واشنگٹن کا اثر و رسوخ دنیا بھر میں کم ہوتا ہے تو یہ صدر شی جن پنگ کی کامیابی ہو سکتی ہے۔
اب ایک بار پھر پارک کا رخ کرتے ہیں جہاں ہم امریکی انتخابات کے نتائج پر بات کر رہے ہیں، ایک آدمی نے چار انگلیاں اٹھا رکھی ہیں۔ ’اس کے پاس صرف چار سال ہیں۔ امریکہ ہمیشہ لیڈر بدلتا رہتا ہے۔ چین میں، ہمارے پاس زیادہ وقت ہے۔
وقت واقعی بیجنگ کی طرف ہے۔ صدر شی تاحیات صدر رہ سکتے ہیں اور اسی طرح اپنے اہداف کی طرف سست لیکن مستحکم پیشرفت کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ٹرمپ راستے میں آجاتے ہیں تو بھی یہ رکاوٹ زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکے گی۔