زیرِ زمین غیرقانونی سونے کی کانیں: یہ خطرناک کام ہے مگر 15 دنوں میں 1100 ڈالر اور سونے کا کچھ حصہ حاصل ہوتا ہے
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ ڈومیسو اپنے جیسے تقریباً 600 غیر قانونی طور پر کان کُنی کرنے والے کان کنوں کے ساتھ زیر زمین ایک پُرخطر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
تاہم یہاں زیر زمین صرف کانیں نہیں ہیں بلکہ یوں کہیے کہ یہاں ایک چھوٹا سا ’شہر‘ بستا ہے جہاں کانوں میں باقاعدہ بازار بھی آباد ہیں اور یہاں تک کہ جسم فروشی بھی کی جاتی ہے۔ زیر زمین سونے کی ان کانوں میں بسے ایسے شہروں کو خطرناک جرائم پیشہ گینگز چلا رہے ہیں۔
رد عمل کے خوف سے اصل نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈومیسو نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’زیر زمین زندگی بہت بے رحم ہے۔ اکثر لوگ یہاں آ کر زندہ واپس نہیں لوٹتے۔ کان کی ایک تہہ میں صرف لاشیں اور ڈھانچے پڑے ہیں۔ ہم اسے ’زمہ زمہ کا قبرستان‘ کہتے ہیں۔‘
ڈومیسو نے بتایا کہ کان کنی کی ایک رجسٹرڈ فرم نے جب اُن کی نوکری ختم کر دی تو انھوں نے دوسری نوکری ڈھونڈنے کی انتھک کوشش کی۔ تاہم غربت کا مقابلہ کرتے کرتے 20 برس گزر گئے لیکن اُن کے حالات نہ بدلے۔
پھر آٹھ سال قبل انھوں نے سونے کی ایک متروکہ کان میں ایک گینگ کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ کان ماضی میں کان کنی سے منسلک ایک رجسٹرڈ کمپنی کی ملکیت تھی۔
جنوبی افریقہ میں غیر قانونی طور پر کان کنی کرنے والوں کو ’زمہ زمہ‘ کہتے ہیں۔ ڈومیسو تقریباً تین مہینے لگاتار زیر زمین ہی رہتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت گینگ کے لیے سونا کھود کر نکالتے ہیں۔
ڈومیسو جیسے غیر قانونی کان کن اس کام سے اچھا خاصہ پیسہ کما لیتے ہیں۔
ہر تین ماہ بعد جب ڈومیسو کان سے باہر زمین پر آتے ہیں تو اپنی محنت سے کھودے ہوئے سونے کا کچھ حصہ بلیک مارکیٹ میں بیچ کر ایک زبردست منافع کما لیتے ہیں۔
دن بھر کان میں مشقت کر کے وہ خود تو رات کو ایک بوری بچھا کر سوتے ہیں لیکن اُن کی فیملی ملک کے دارالحکومت جوہانسبرگ میں واقع اُن کے گھر میں آرام دہ زندگی بسر کر رہی ہے۔
Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ گھر انھوں نے غیر قانونی کان کنی کر کے خریدا تھا۔
ایک کمرے کا یہ گھر خریدنے کے لیے انھوں نے 1 لاکھ 30 ہزار رینڈ یعنی تقریباً سات ہزار ڈالر نقد ادا کیے تھے جبکہ اب اسی گھر میں توسیع کر کے انھوں نے مزید تین کمرے تعمیر کر لیے ہیں۔
گذشتہ آٹھ سالوں سے غیر قانونی کان کنی کرنے کے بعد ڈومیسو اب اس قابل ہیں کہ وہ اپنے تینوں بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں جبکہ ان کی ایک بیٹی یونیورسٹی بھی جا رہی ہے۔
ڈومیسو نے بتایا کہ ’مجھے اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھنا ہے اور انھیں ایک اچھی زندگی دینے کا مجھے یہی ایک طریقہ سمجھ آتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ایمانداری سے روزی روٹی کمانے کے لیے انھوں نے سالوں اچھی نوکری کی تلاش کی لیکن ناکام رہے۔ تاہم اُن کے مطابق وہ چوریاں اور لوٹ مار جیسے جرائم کرنے کے بجائے زیر زمین محنت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جو بذات خود ایک غیرقانونی کام ہے۔
ڈومیسو جوہانسبرگ سے 145 کلومیٹر دور واقع سٹل فونٹین نامی ایک چھوٹے سے علاقے میں واقع ایک کان میں کام کرتے ہیں۔ حال میں یہی کان عالمی توجہ کا مرکز بنی جب وفاقی وزیر خمبڈسو چوانی نے وعدہ کیا کہ وہ زیر زمین کان میں ’دھواں مار کر‘ یہاں بسے سینکڑوں غیر قانونی کان کنوں کو نکال دیں گی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ حکام ایسے اقدامات لے رہے ہیں جن کی بدولت ان زیر زمین شہروں میں کھانے پینے اور دیگر اشیائے ضروریہ نہ پہنچ سکیں۔
وزیر کے مطابق کہ ’مجرموں کی مدد نہیں کرنی بلکہ انھیں ستانا ہے۔‘
مقامی پولیس کے مطابق یہ کان دو کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔
اس بارے میں عدالت نے ایک عبوری فیصلہ جاری کیا ہے کہ کان کنوں کو خوراک اور دیگر ضروری سامان پہنچایا جا سکتا ہے۔
ڈومیسو دو کلومیٹر زیر زمین اِسی کان کی ایک شافٹ میں کام کرتے ہیں۔ تاہم اس تنازع کے شروع ہونے سے ایک ماہ قبل وہ یہاں سے باہر آئے تھے۔
اب ڈومیسو انتظار کر رہے ہیں کہ صورتحال میں جو بھی تبدیلی آئے گی اسی کی بنیاد پر وہ واپس جانے کا فیصلہ کریں گے۔
یہ تنازع تب کھڑا ہوا جب حکومت کی جانب سے غیر قانونی کان کنی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا کیونکہ اس صنعت پر مافیا گینگز حاوی ہو چکے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی برائے معدنی وسائل کے چیئر مین میکاٹیکو مالولے نے بتایا کہ ’ملک کئی سالوں سے غیر قانونی کان کنی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ کان کنوں کی کمیوٹی کو ریپ، لوٹ مار اور انفراسٹرکچر کے نقصان جیسے جرائم کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔‘
جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کہا کہ کان ایک ’کرائم سین‘ بن گیا ہے لیکن پولیس غیر قانونی کان کنوں کو گرفتار کرنے کے بجائے تنازع کو ختم کرنے کے لیے اُن کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’قانون نافذ کرنے والے حکام کے پاس معلومات ہیں کہ کچھ کان کن بھاری ہتھیاروں سے لیس ہو سکتے ہیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ جرائم پیشہ گروہ غیر قانونی کان کنوں کو بھرتی کرتے ہیں اور اس طرح انھیں وسیع تر منظم جرائم کا حصہ بنا رہے ہیں۔ ‘
ڈومیسو اُن لاکھوں کارکنوں میں شامل ہیں جو گذشتہ تین دہائیوں سے جنوبی افریقہ کی کان کنی کی صنعت کے زوال سے متاثر ہیں۔ ان میں ہمسایہ ممالک جیسے لیسوٹو کے کان کن بھی شامل ہیں جو اب ’زمہ زمہ‘ بن کر ان متروکہ کانوں میں غیرقانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے ایک محقق ڈیوڈ وین ویک جو اس صنعت کا مطالعہ کر چکے ہیں، بتاتے ہیں کہ ملک میں اس طرح کی تقریباً چھ ہزار متروکہ کانیں ہیں۔
Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’یہ کانیں بڑی سطح پر صنعتی کان کنی کے لیے منافع بخش نہیں ہیں لیکن چھوٹی سطح پر اس میں بہت فائدہ ہے۔‘
ڈومیسو بتاتے ہیں کہ جب وہ بطور ڈرِل آپریٹر ایک سونے کی کان کنی کرنے والی کمپنی میں نوکری کر رہے تھے تو انھیں ماہانہ 220 ڈالرز سے بھی کم تنخواہ ملتی تھی۔ سنہ 1996 میں ان کی نوکری اچانک ختم کر دی گئی جس کے بعد انھوں نے 20 سال کسی اچھی نوکری کی تلاش کی لیکن ناکام رہے۔
محقق ڈیوڈ وین ویک کا کہنا ہے کہ ملک میں اس طرح کے لاکھوں کان کن ہیں جبکہ صرف 36 ہزار تو ملک کی معیشت کی دھڑکن سمجھے جانے والے صوبے گوٹنگ میں ہی موجود ہیں۔
گوٹنگ وہی صوبہ ہے جہاں 19ویں صدی میں پہلی بار سونا دریافت ہوا تھا۔
بین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف عالمی اقدام نامی مہم چلانے والے گروہ کی رپورٹ کے مطابق ’زمہ زمہ مہینوں زیر زمین رہتے ہیں اور باہر سے آنے والی خوراک اور ضروری سامان پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک اور محنت والا کام ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’ان میں سے کئی کان کن اپنے پاس پستول، چھوٹی بندوق اور سیمی آٹو میٹک ہتھیار رکھتے ہیں تاکہ دشمن گروہ کے کان کنوں سے اپنی حفاظت کر سکیں۔‘
Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے ڈومیسو نے بتایا کہ ان کے پاس بھی ایک پستول ہوا کرتی تھی، تاہم وہ اپنے گینگ کو ماہانہ آٹھ ڈالر کی ادائیگی کرتے تھے تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے۔
انھوں نے بتایا کہ گینگ کے مسلح گارڈز ان کی 24 گھنٹے حفاظت کرتے تھے، خاص طور پر لیسوٹو سے تعلق رکھنے والے گینگز سے جو اپنے اسلحے کی طاقت کی وجہ سے مشہور ہیں۔
ڈومیسو نے بتایا کہ سونا تلاش کرنے کے لیے چٹانوں کو توڑنے کے لیے وہ بارود کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر آوزار بھی استعمال کرتے تھے جیسا کہ کلہاڑی، بیلچہ اور چھینی وغیرہ۔
جو بھی سونا انھیں ملتا تھا وہ اپنے گینگ لیڈر کو دے دیتے تھے جو اُنھیں ہر دو ہفتے کے کم از کم 1100 ڈالر دیتا ہے۔ ڈومیسو نے بتایا کہ انھیں سونے کا کچھ حصہ بھی دیا جاتا ہے جسے بلیک مارکیٹ میں فروخت کر کے وہ اوپری کمائی بھی کر لیتے ہیں۔
ڈومیسو خود کو اُن ’خوش قسمت‘ کان کنوں میں شمار کرتے ہیں جو اس طرح کام کر پا رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر کان کن اغوا کیے گئے ہیں اور یہاں غلامی میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ انھیں نہ ہی کوئی معاوضہ ملتا ہے نہ ہی سونا۔
ڈومیسو نے بتایا کہ وہ لگاتار تین ماہ کان میں رہتے ہیں۔ پھر سونا فروخت کرنے اور اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے دو سے چار ہفتوں کے لیے کان سے باہر آتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جب وہ زیر زمین ہوتے ہیں تو ’اپنے بستر میں سونے اور گھر کا کھانا کھانے کے خواب دیکھتا ہوں۔ صاف ہوا میں سانس لینا ایسا لگتا ہے جیسے کوئی عجیب سی طاقت مل گئی ہو۔‘
وہ کان سے باہر زیادہ وقت نہیں گزارتے کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ کوئی ان کی جگہ نہ چھین لے۔
تاہم تین ماہ بعد جب ان کا کان میں دم گھٹنے لگتا ہے تو انھیں باہر آنا ہی پڑتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ایک بار جب وہ کان سے باہر آئے تھے تو انھیں ’سورج کی روشنی اتنی تیز لگی کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اندھے ہو گئے ہیں۔‘
ایک مرتبہ تو اُن کی جلد کا رنگ اتنا پھیکا پڑ گیا تھا کہ اُن کی بیوی انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے ڈاکٹر کو سب سچ بتا دیا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ ڈاکٹر نے کچھ نہیں کہا، بس میرا علاج کیا اور مجھے وٹامن کی گولیاں تجویز کر دیں۔‘
لیکن ڈومیسو کان سے باہر آنے کے بعد صرف آرام نہیں کرتے بلکہ دیگر غیر قانونی کان کنوں کے ساتھ مل کر معدنیات سے بھری چٹانوں کو دھماکے سے اڑا کر اس کا پوڈر بھی بناتے ہیں۔ ایک عارضی پلانٹ پر اس پوڈر کو ’دھویا‘ جاتا ہے اور اس میں خطرناک کیمیکل جیسے پارا اور سوڈیم سائنائڈ ملا کر اس میں سے سونا الگ کیا جاتا ہے۔
ڈومیسو کہتے ہیں کہ وہ اپنے حصے کا سونا فی گرام 55 ڈالر میں فروخت کرتے ہیں جبکہ اس کی سرکاری قیمت 77 ڈالر فی گرام کے قریب ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سونا خریدنے کے لیے ان کے پاس ایک گاہک ہیں جن سے وہ واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں۔
’پہلے مجھے ان پر اعتبار نہیں تھا کیونکہ میں ان سے پہلی بار مل رہا تھا۔ اس لیے میں نے انھیں پولیس سٹیشن کی کار پارکنگ میں بلایا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہاں میں محفوظ ہوں۔‘
’اب میں کسی بھی کار پارکنگ میں ان سے مل لیتا ہوں۔ ہمارے پاس وزن کرنے والی ایک مشین ہے۔ ہم ہاتھوں ہاتھ سونے کا وزن تولتے ہیں اور میں انہیں وہ سونا دے دیتا ہوں۔ بدلے میں وہ مجھے نقد ادائیگی کرتے ہیں۔‘
ڈومیسو نے بتایا کہ اس طرح وہ 3800 ڈالرز سے لے کر 5500 ڈالرز تک کما لیتے ہیں۔
یہ رقم انہیں ہر تین ماہ بعد ملتی ہے یعنی اوسطاً ان کی سالانہ کمائی 15 ہزار 500 ڈالر سے لے کر 22 ہزار ڈالر کے درمیان ہے۔
یہ سالانہ کمائی اس تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے جو انہیں قانونی کان کنی کرکے 2700 ڈالرز کی شکل میں ملتی تھی۔
ڈومیسو یہ تو نہیں جانتے کہ گینگ لیڈرز کتنا کماتے ہیں لیکن انہیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ اُن سے تو بہت زیادہ کماتے ہیں۔
اپنے گاہک کے بارے میں ان کے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک سفید فام آدمی ہے جو کسی غیر قانونی صنعت میں ملوث ہے جس میں ہر نسل اور طبقے کے لوگ شامل ہیں۔
محقق ڈیوڈ وین ویک کا کہنا ہے کہ حکومت کان کنوں کو نشانہ بنا رہی ہے جبکہ جو ’بادشاہ ہیں وہ جوہانسبرگ اور کیپ ٹاؤن کے سرسبز نواحی علاقوں میں آزادی سے زندگی گزار رہے ہیں۔‘
جبکہ ملک کے صدر رامافوسہ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی کان کنی سے ملک کی معیشت کو برآمدات میں اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کان کنی کی فرمز کے ساتھ کام کرتی رہے گی تاکہ ’متروکہ کانوں کو صحیح طریقے سے بند کرنے یا بحال کرنے کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
تاہم محقق وین ویک کا کہنا ہے کہ اگر حکومت غیر قانونی کان کنوں کے پیچھے پڑی رہے گی تو ملک کا معیشتی بحران مزید بڑھ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی کان کنی کو ’قانونی حیثیت دے کر کان کنوں کو بہتر طریقوں سے منظم بنانے کی کوئی پالیسی ہونی چاہیے۔‘
ڈومیسو بتاتے ہیں کہ جب وہ زیر زمین کام کرنے واپس جاتے ہیں تو اپنے ساتھ ٹن کے ڈبوں میں پیک کھانے لے جاتے ہیں تاکہ وہاں بسے ’بازاروں‘ سے انہیں مہنگی قیمتوں میں کھانے پینے کی اشیا نہ خریدنی پڑے۔
انہوں نے بتایا کہ کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ ان بازاروں میں کان کنی کے آوزار سمیت سگریٹ، ٹارچ اور بیٹریاں بھی ملتی ہیں۔
یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ایک چھوٹا سا قصبہ بس گیا ہے۔ ڈومیسو کے مطابق یہاں ایک ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ بھی بن گئی ہے جہاں گینگز سیکس ورکرز لے آتے ہیں۔
ڈومیسو نے بتایا کہ جس کان میں وہ کام کرتے تھے وہ کئی سطحوں پر مشتمل تھی۔ اس کی سرنگیں آپس میں ایسے جڑی ہوئی تھیں جیسے کوئی بھول بھلیاں ہو۔
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ سرنگیں ’شاہراہوں کی طرح بنی ہوئی ہیں جن میں مختلف مقامات اور سطحوں کی نشاندہی کے لیے سائن بورڈ نصب ہیں، جیسے بیت الخلا کی سطح یا وہ سطح جسے ہم زمہ زمہ کا قبرستان کہتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کچھ کان کن اپنے اوپر بڑے بڑے پتھر گرنے کی وجہ سے کچل کر مر جاتے ہیں جبکہ کچھ دشمن گینگز کے ارکان کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ میرا ایک دوست بھی اسی طرح قتل ہوا جب اس کا سونا چھین کر اس کے سر میں گولی مار دی گئی۔'
اگرچہ زیرزمین زندگی خطرناک ہے لیکن یہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے ڈومیسو جیسے ہزاروں لوگ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس کا متبادل صرف یہی ہے کہ ایک ایسے ملک میں غریب رہ کر جیئیں اور مریں جہاں بے روزگاری کی شرح 30 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔