انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حج پر جانے والے افراد کی تعداد میں ریکارڈ کمی: خرچ کا سن کر لوگ اپنا فارم واپس لینے پر مجبور ہوگئے
سرینگر میں گزشتہ برس سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے والے اور حج پر جانے کے خواہشمند ایک شہری نے حج کمیٹی سے یہ کہہ کر فارم واپس لے لیا کہ وہ اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے usesinurdu.com کو بتایا کہ 'میری دو بیٹیاں ہیں، جب سُنا کہ میرے اور میری بیوی کے حج پر جانے کا خرچ 9 لاکھ روپے ہے تو میں نے سوچا کہ اگر 9 لاکھ روپے خرچ کر دے تو ہماری بیٹیوں کا کیا ہو گا۔ حج پر جانا ہمارا خواب تو تھا لیکن مہنگائی نے کمر توڑ دی۔'
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی سٹیٹ حج کمیٹی کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر شجاعت قریشی نے usesinurdu.com کے ساتھ گفتگو کے دوران بتایا کہ 22 سال میں پہلی دفعہ قرعہ اندازی کی نوبت ہی نہیں آئی کیونکہ 7900 کے کوٹے میں کمیٹی کو صرف 4300 درخواستیں موصول ہوئیں اور ان میں سے بھی 700 افراد نے فارم ہی واپس لے لیے ہیں۔
حج پر جانے والوں میں ریکارڈ کمی کی وجوہات کیا؟
ڈاکٹر شجاعت نے usesinurdu.com کو بتایا کہ 'مہنگائی کے اس دور میں ایک شخص کے لیے ساڑھے چار لاکھ روپے خرچ کرنا بہت مشکل ہے۔'
واضح رہے کہ گزشتہ 20 سال کے دوران کشمیر میں حج پر جانے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو مل رہا تھا اور ان میں اکثریت جوان سال جوڑوں کی ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں حج اور عمرہ سے متعلق متعدد ٹریول کمپنیاں بھی موجود ہیں۔
ان کمپنیوں کی انجمن 'جموں کشمیر ایسوسی ایشن آف حج اینڈ عمرہ سروسز' کے سربراہ شیخ فیروز کہتے ہیں کہ 'عازمینِ حج کی تعداد میں کمی کی بڑی وجہ مہنگائی ہے جس کی وجہ سے اب یہاں لوگوں کی ترجیحات مجبوراً بدل رہی ہیں۔'
نجی سیکٹر میں حج اور عمرہ ایک باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس کا حجم ایک ہزار کروڑ روپے تک بتایا جاتا ہے۔
شیخ فیروز کے مطابق اس وقت حج آپریٹرز کے کاروبار میں 75 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'مہنگائی تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی آمدن کے ذرائع بھی محدود ہورہے ہیں اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ ایسے میں لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور خواب یعنی حج کو ایک جانب رکھ کر ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔'
'دبئی انٹرنیشنل' نامی ایک حج سروس کمپنی کے مالک پرویز بٹ کا کہنا ہے کہ 'یہ کمی اچانک رونما نہیں ہوئی۔'
'ہم لوگ ڈیمانڈ میں کمی کئی سال سے محسوس کر رہے تھے لیکن اس سال یہ گراؤٹ تشویشناک حد تک پہنچی۔ اس کی ظاہری وجہ تو مہنگائی ہے لیکن ایسا صرف مہنگائی کی وجہ سے ہی نہیں ہوسکتا۔ اس کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے، ہم بس یہ پتا لگانے کی کوشش میں ہیں۔'
اقتصادی ماہر اعجاز ایوب کے مطابق، "مہنگائی اور جمع پونجی میں کمی بنیادی وجوہات ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں سے سعودی عرب میں شدید گرمی کی وجہ سے لوگ سردیوں میں عمرہ کے لیے جانے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ اس دوران موسم معتدل رہتا ہے اور حج کے مقابلے میں عمرہ کی لاگت بھی کم ہے۔"
’آمدن میں اضافہ مہنگائی کی شرح میں اضافے سے بہت کم ہے‘
یہ بات واضح ہے کہ پچھلے سال انڈیا کی سینٹرل حج کمیٹی کے خلاف لوگوں کے درمیان غم و غصہ پایا گیا تھا، کیونکہ حج کے دوران انتظامات کی کمی کی وجہ سے شدید گرمی میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے دس کا تعلق کشمیر سے تھا۔
اعجاز ایوب مزید کہتے ہیں، "گزشتہ سال کے حادثے کی وجہ ڈیمانڈ میں کمی نہیں ہے، کیونکہ جو لوگ ہلاک ہوئے وہ سرکاری کمیٹی کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اگر یہ وجہ ہوتی تو لوگ پرائیویٹ آپریٹرز کا انتخاب کرتے، جو زیادہ پیسہ لیتے ہیں اور بہتر سہولیات فراہم کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہو رہا۔"
اعجاز ایوب کے مطابق، سنہ 2012 میں جموں کشمیر کی اوسط فی کس سالانہ آمدن 51 ہزار روپے تھی، جو اس سال بڑھ کر ایک لاکھ 42 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں، "آمدنی میں ہونے والا یہ اضافہ مہنگائی کی شرح میں اضافے سے کم ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ بڑے اخراجات سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"