پاکستانی پیسرز نے جو شارٹ لینتھ گیندیں نگروا پر پھینکیں، ان کے جواب میں نگروا نے زیادہ شدت سے وہی گیندیں باؤنڈری کی طرف روانہ کیں۔ یہ میچ کا وہ حصہ تھا جس کی کسی پلاننگ شیٹ یا ٹیم میٹنگ میں توقع نہیں کی گئی تھی۔
جو سبق پاکستانی بلے بازوں کو زمبابوین اننگز سے سیکھنا چاہیے تھا، وہ بھی وہ سیکھنے میں ناکام رہے کہ اس خشک پچ پر پرانی گیند کے خلاف تیز رفتار رنز کا حصول ناممکن ہے۔ یہاں پاور پلے میں ایک اچھے آغاز کی ضرورت تھی۔
مگر بلیسنگ مزربانی نے یہ خواہش بھی تشنہ ہی چھوڑ دی۔ مزربانی اپنے پی ایس ایل تجربے کی بدولت زیادہ تر پاکستانی بلے بازوں سے واقف ہیں اور اسی تجربے کو بروئے کار لا کر انھوں نے پاکستانی بلے بازوں کے سامنے ایسے سوالات رکھے جو آسانی سے حل نہیں ہو سکے۔
نہ صرف نوجوان زمبابوین بیٹنگ نے یہاں اپنے存在 کا بھرپور ثبوت پیش کیا بلکہ بولنگ میں بھی انہوں نے پاکستان کے بہترین بلے بازوں کی تکنیکی خامیوں کو عیاں کر دیا۔
ایسے میں یہ بحث کرنا بے معنی ہے کہ اگر بارش حائل نہ ہوتی تو شاید محمد رضوان اور عامر جمال میچ بچا لیتے۔
کیونکہ جس انداز سے زمبابوین اوپنرز نے میچ میں بنیاد رکھی اور جیسی بولنگ پہلے اکیس اوورز میں کی، وہ نہ صرف جیت کی مکمل حقدار تھی بلکہ باقی ماندہ سیریز میں پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی۔