ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی: کیا اسرائیل کو سعودی عرب اور اسلامی دنیا کے لیے قابل قبول ریاست بنانے کا منصوبہ دوبارہ زیر غور آئے گا؟
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے صدارتی دور کا آغاز کرنے دوبارہ وائٹ ہاؤس واپس آ رہے ہیں اور اس وقت اُن پالیسیوں میں سے جو انھوں نے کام کیا ہے، سب سے زیادہ قابلِ ذکر مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے اُن کی تجویز تھی جس پر ان کے پہلے صدارتی دور کے دوران عمل نہیں کیا گیا تھا۔
ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ کی پٹی میں ایک سال سے زائد عرصے سے جنگ جاری ہے اور چار سال پہلے کے مقابلے میں امریکہ سمیت دنیا کو ایک مختلف حقیقت کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے منصوبے، جسے میڈیا میں ’صدی کی ڈیل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کا مستقبل میں نفاذ ہو سکتا ہے۔
فلسطینی اس منصوبے سے مطمئن نہیں تھے اور اسے بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر فلسطینیوں کے حقوق سے متصادم سمجھتے تھے، خاص طور پر سرحدوں، پناہ گزینوں اور یروشلم کے مسائل کے حوالے سے تاہم، ٹرمپ نے اس منصوبے کو فلسطینیوں کے لیے ’شاید ایک آخری موقع‘ قرار دیا تھا۔
جہاں تک اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا تعلق ہے، انھوں نے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’صدی کا معاہدہ اس صدی کا ایک اہم موقع ہے، اور ہم اسے ضائع نہیں کریں گے۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ ٹرمپ اپنی اگلی مدت میں مشرق وسطیٰ کے اپنے امن منصوبے کو دوبارہ شروع کریں گے، لیکن اس کے بارے میں بہت سے مباحثے جاری ہیں کہ اسے نئی شکل میں کیسے دوبارہ شروع کیا جائے۔
ٹرمپ کا امن منصوبہ ہے کیا؟
28 جنوری 2020 کو ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں سخت شرائط کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کے قیام، مغربی کنارے کی بستیوں اور وادی اُردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کرنے، اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کا اطلاق نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس منصوبے میں فلسطینیوں کو ایک ریاست قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے لیکن اس میں اسرائیل کو ایک ’یہودی ریاست‘ کے طور پر تسلیم کرنے سمیت ’تمام قسم کی دہشت گردی کو واضح طور پر مسترد کرنے‘ کی شرائط شامل تھیں۔
اس امن منصوبے میں کہا گیا کہ مجوزہ فلسطینی ریاست کو ’غیر عسکری‘ کر دیا جائے گا اور اسرائیل کے پاس وادی اُردن کے مغربی علاقے میں سکیورٹی اور فضائی حدود کے کنٹرول کی ذمہ داری ہو گی، جبکہ حماس، جو غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالتی ہے، کو ’غیر مسلح‘ کیا جائے گا۔
ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں مجوزہ فلسطینی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا اس کے مطابق سنہ 1967 سے اسرائیل کے زیر قبضہ تمام فلسطینی علاقوں پر فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو گی اور نہ ہی یہ اس سے متصل ہو گی۔
اس منصوبے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یروشلم ’اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا‘ جبکہ فلسطینی دارالحکومت مشرقی یروشلم کے حصے میں ہو گا۔ اس میں کہا گیا کہ ’فلسطینی دارالحکومت کفر عقب، شوافات کے مشرقی حصے اور ابو دیس میں ہو سکتا ہے، اور اسے یروشلم یا ریاست فلسطین کی طرف سے کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے۔‘
اس منصوبے میں فلسطینی پناہ گزینوں کے ’اپنے گھروں کو واپسی‘ کے حق کی شرط نہیں رکھی گئی تھی اور تین تجاویز دی گئی تھیں جن میں:
نئی فلسطینی ریاست میں واپسی، ان کا میزبان ممالک میں انضمام، یا اسلامی تعاون تنظیم میں شرکت کے خواہشمند ممالک میں تقسیم شامل تھی۔
اس منصوبے میں یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے کنٹرول کے بارے میں کہا گیا کہ ’صورتحال جوں کی توں رہے گی، اور اسرائیل یروشلم میں مقدس مقامات کی حفاظت جاری رکھے گا اور مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے لیے عبادت کی آزادی کی ضمانت دے گا۔‘ منصوبے کے تحت، اردن یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں برقرار رکھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس کی کامیابی کے لیے دس ممکنہ وجوہات
’ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں امن منصوبے کی واپسی کے امکانات کافی زیادہ ہیں‘
Uses in Urdu کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی امور کے مصنف اور محقق نذیر مجالی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے نئے دور میں اس امن منصوبے کی واپسی کے امکانات بہت زیادہ ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ یہ اسی شکل اور شرائط میں دوبارہ پیش کیا جائے۔
واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر حسن منیمنہ کہتے ہیں کہ ’ہم ’صدی کے معاہدہ‘ نامی امن منصوبے کو ایک ترمیم شدہ، تبدیل شدہ شکل میں دیکھیں گے اور ٹرمپ اسے ’ڈیل آف دی سنچری 2‘ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔
Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے پروفیسر حسن منیمنہ کا کہنا ہے کہ اس ممکنہ نئے مسودے میں ’فلسطینیوں کے سیاسی حقوق کے معاملے کو بالآخر حتمی طور پر ختم کرنے اور انھیں ’کچھ اقتصادی حقوق دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
اس بارے میں سیاسی تجزیہ کار عامر ال سبیلہ کا خیال ہے کہ امن منصوبہ اپنی پرانی شکل میں ’اب درست نہیں رہا۔‘ اور فی الحال نئے زمینی حقائق نئی تجاویز کی بنیاد ہو سکتے ہیں۔
نذیر مجالی کے مطابق ’ٹرمپ صرف معاہدوں کے حوالے سے سوچتے ہیں اور یہ فرض کرتے ہیں کہ انھیں معاملات کا بہتر علم ہے۔ اور اس سوچ کے تحت وہ مذاکرات کا حصہ بنیں گے اور ایسے معاونین کے گروہ سے متاثر ہوں گے جن کی اکثریت صیہونی نظریے کی حامی ہے۔‘
مجالی اس امن معاہدے میں اثر انداز ہونے والے دیگر فریقین جن میں فلسطینی، عرب اور اسلامی ممالک کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمینی حالات اور بگاڑ سے علاقائی اور عالمی امن کو خطرہ ہے۔
ال سبیلہ کے مطابق گذشتہ سال کے واقعات اس کی بنیاد ہوں گے اگر ٹرمپ انتظامیہ ایک نئی ڈیل تجویز کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم امن منصوبے کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ایک معاہدے کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس میں اکثر چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے جیسا کہ زمینی حقائق۔‘
یہ بھی پڑھیں: دکھی انسانیت، بے روزگار اور غیر تربیت یافتہ افراد کے لیے کام کریں: طارق محمود رحمانی
’وہ دور اب ختم ہو گیا‘
اسرائیلی امور میں مہارت رکھنے والے تجزیہ کار مجالی کا خیال ہے کہ مسئلہ فلسطین کا ’دو ریاستی حل ہی مثالی حل ہے۔ دو ریاستی حل کا معاملہ اب بھی حقیقت پسندانہ اور مناسب حل ہے، حالانکہ موجودہ اسرائیلی حکومت امن پسند حکومت نہیں ہے۔‘
مجالی کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل کو دنیا نے قبول کیا ہے، اور اسے ترک نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ 'اسے ترک کرنا ان لوگوں کی خدمت ہے جو مکمل اسرائیلی سرزمین کے نظریے کے حامی ہیں، جو فلسطینی عوام کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرتے۔'
سعودی مصنف اور محقق مبارک العطی نے مجالی کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے Uses in Urdu سے کہا کہ 'دو ریاستی حل وہ آپشن ہے جو ابھی بھی میز پر ہے، کیونکہ یہ سب کے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے، اور واضح طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کے اصول کو متعین کرتا ہے۔ اور جو عرب فریقین کے لیے سب سے اہم نکتہ ہے۔'
ان کے مطابق 'میرے خیال میں یہ کم سے کم ہے جسے عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب، قبول کر سکتا ہے۔' وہ مزید کہتے ہیں کہ 'یہ وہ بنیاد ہو گی جس سے اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے اور اسے تسلیم کرنے کے معاملے پر نئے سعودی امریکی مذاکرات شروع ہو سکیں گے۔'
اس کے برعکس، تجزیہ کار ال سبیلہ کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل ایک ایسا حل ہے جس سے وہ سیاسی طور پر چمٹے ہوئے ہیں، لیکن زمینی حقائق میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا، اور نہ ہو گا، اور اس طرح یہ اپنی مجوزہ شکل میں ہی ختم ہو گیا۔ اب اس کا دور ختم ہو گیا، اور اب اگلے مرحلے میں مستقبل کے کوئی بھی حل خطے کے جغرافیہ سے جڑے ہوں گے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ جنگ کو غزہ سے لے کر مقبوضہ مغربی کنارے اور لبنان سے لے کر گولان کی پہاڑیوں تک اور حتیٰ کہ اردن کے ساتھ سرحد تک کو دوبارہ کھینچنے کے لیے ایک سیکورٹی بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
ان کے مطابق 'اسرائیل کو سیکورٹی کے نظریے کے مطابق دوبارہ ترتیب دینے کی خواہش ہے، اور اس طرح سے فلسطینی ریاست کے وجود یا دو ریاستوں کے درمیان بقائے باہمی کا تصور اور خیال کم ہو جائے گا۔'
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل ٹرمپ انتظامیہ پر زمینی مسائل کے لیے ایک عملی حل نکالنے کے لیے دباؤ ڈالے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں اربوں ڈالروں کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا ممکنہ موقع
کیا اسرائیل مغربی کنارے کو ضم کرے گا؟
عامر ال سبیلیہ امکان ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے منصوبے میں اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے بڑے علاقوں کا الحاق شامل کرنے کے بعد، اسرائیل سرحدوں کو دوبارہ بنانے، زمینوں کو ملحق کرنے، اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے، اور نئے بفر زونز بنانے کے لیے سکیورٹی جغرافیہ کو دوبارہ ترتیب دینے کے عمل سے فائدہ اٹھائے گا۔
ٹرمپ نے آرکنساس کے سابق گورنر مائیک ہکابی کو اسرائیل میں اگلے امریکی سفیر کے طور پر منتخب کیا ہے، جنھوں نے 2017 میں کہا تھا کہ 'مغربی کنارے جیسی کوئی چیز نہیں ہے، یہ یہودیہ اور سماریہ ہے۔ اسرائیلی بستیوں کے نام جیسی کوئی چیز نہیں ہے، یہ برادریاں ہیں، یہ محلے ہیں، یہ شہر ہیں۔ قبضے جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔'
تجزیہ کار منیمنہ مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کے اعلان سے متعلق بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلسطینی آبادی پر مشتمل علاقوں کے علاوہ جہاں پر خودمختاری کا مکمل اعلان نہیں کیا جا سکتا ہے اسرائیل ایسے بھی کچھ کرنے پر زور ڈال سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی تصفیے سے قطع نظر اب بھی مغربی کنارے کا اسرائیل کے ساتھ الحاق جاری ہے۔'
اس ماہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کے ذمہ دار اسرائیلی وزیر، بیزلیل سموٹریچ نے اپنی وزارت کو مغربی
کنارے میں بستیوں پر مکمل اسرائیلی خودمختاری مسلط کرنے کی تیاری شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیو سینا کی سیاست میں تبدیلی: بال ٹھاکرے کے بیٹے جن کا ہندوتوا ‘مراٹھی میں لکھا قرآن’ ہے۔
سیاسی تعلقات کی بحالی سے زیادہ
سعودی مصنف اور محقق مبارک العطی کہتے ہیں کہ سعودی عرب یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی و سیاسی تعلقات کی بحالی صرف ان دو ممالک کے درمیان ہی نہیں بلکہ یہ اسلامی دنیا اور یہودیت کے درمیان تعلقات کی بحالی ہے، لہذا یہ صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی اہمیت کے حامل بھی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل پر مضبوط مؤقف اپنائے ہوئے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و سیاسی تعلقات بحال ہونے کا فائدہ ریاض سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچتا ہے کیونکہ یہ اسرائیل کو صرف عرب دنیا ہی میں نہیں بلکہ اسلامی دنیا میں ایک قابل قبول ملک بنا دے گا اور یہ ایک بہت بڑی قیمت ہے اور اسرائیل کو ایک فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، کو تسلیم کر کے یہ قیمت ادا کرنی چاہیے۔‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے اسرائیلی امور کے ماہر نذیر مجالی کہتے ہیں کہ ’اس امکان کے باوجود کہ فلسطینی کسی بھی عرب ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کو قبول نہیں کریں گے، موجودہ وقت میں اس مسئلے کا نقطہ نظر مختلف ہونا چاہیے۔‘
نذیر مجالی کا کہنا ہے کہ ’وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں وہ آزاد ریاستیں ہیں جن کے اپنے مفادات ہیں، اور فلسطینیوں کو ان میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اگر وہ (ممالک) سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ان کا مفاد ہے تو یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اگر فلسطینیوں کو لگتا ہے کہ یہ تعلقات ان کے قومی حقوق پر اثر انداز ہو سکتے ہیں تو وہ دوستانہ طریقے سے ان ممالک کی اس طرف توجہ مبذول کروائیں۔‘
مجالی کہتے ہیں کہ ان سفارتی تعلقات کی بحالی کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی ممالک ’اسرائیلی قبضے سے فلسطین کی آزادی اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی نظریات پیش کر کے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جس منصوبے کے بارے میں بات کی جا رہی ہے اس میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ایک جامع امن پلان شامل ہے، جس کے بدلے میں اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، اور ہمیں اسی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘
اس ماہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط رکھی تھی۔
منیمنہ اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’سعودی عرب نے امریکی انتخابات سے پہلے یہ کہا تھا کہ دو ریاستی حل کی شرط تعلقات میں بحالی کا نقطہ آغاز ہے، نہ کہ فلسطینی ریاست کے قیام کو سفارتی تعلقات کے ساتھ مشروط کرنا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب کو احساس ہے کہ طاقت کا توازن اس کے حق میں نہیں ہے، اور اس لیے وہ دوسرے عرب اور اسلامی ممالک کی طرح اصولی موقف اختیار کرتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس وقت غزہ میں جنگ کے دوران ان پتوں کو استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
’واشنگٹن عمان اور قاہرہ کا خیال رکھے گا‘
ٹرمپ کے ممکنہ اگلے امن منصوبے سے متعلق اردن اور مصر کی جانب سے کسی بھی نتائج یا کردار سے متعلق خدشات پر تجزیہ کار منیمنہ کہتے ہیں کہ سرکاری امریکی موقف اب بھی قاہرہ اور عمان کے اصرار کو مدنظر رکھتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے اور کسی بھی تصفیے کو مسترد کرنے کا بوجھ ’فلسطینیوں کو ان ممالک کی طرف جانے کے لیے دھکیلنے‘ کا باعث بن سکتا ہے۔
ال سبیلہ نے کہا کہ اس وقت ’سٹیٹس کو‘ کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے اور سب نے غزہ جنگ، رفح بارڈر کی بندش اور مغربی کنارے کے شمالی علاقوں پر اسرائیلی کنٹرول کی مخالفت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آنے والے برسوں میں تمام رہنما اس مسئلے کے عملی حل کے بارے میں سوچیں گے جو زمینی حقائق اور جغرافیائی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر نکالا جائے گا اور جسے اسرائیل پیش کرے گا۔‘
جب ’صدی کے معاہدے‘ کی تجویز پیش کی گئی تھی تو اس وقت اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے ’کسی بھی یکطرفہ اسرائیلی اقدامات کے خطرناک نتائج سے خبردار کیا تھا اور 1967 کی سرحدوں پر مبنی دو ریاستی حل کی پاسداری پر زور دیا تھا۔
مصری وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ’قاہرہ مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی قانونی جواز اور اس کے فیصلوں کے مطابق حل کرنے کے حوالے سے امریکی اقدام کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔‘
منیمنہ امریکی اسرائیل نواز تھنک ٹینک کے حلقوں میں بڑھتے ہوئے نقطہ نظر کا ذکر کرتے ہیں کہ عرب ممالک کو فلسطینیوں کے تئیں اپنی انسانی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہییں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایک ایسے مرحلے پر ہیں جہاں ہمیں اس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘