کوپ 29، ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن…
شاعر انقلاب کی آواز
"تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں"
یہ بھی پڑھیں: سابق ٹیسٹ کرکٹ محمد یوسف کا نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی کوچنگ چھوڑنے کا فیصلہ
ماحولیاتی بحران اور کوپ 29
شاعر انقلاب حبیب جالب کے ان جذبات کی حقیقی ترجمانی ماحولیاتی اعتبار سے بدتدین مخدوش صورتحال سے دوچار ممالک نے باکو میں کوپ 29 اجلاس کے دوران دی۔ اجلاس میں ڈیڈ لاک پر بطور احتجاج مشاورتی عمل سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ مسلسل بڑھتی سطح سمندر سے متاثر جزائر پر مشتمل ممالک، افریقہ کی غریب ریاستوں کے نمائندوں نے حتمی اعلامیئے سے پہلے مالیات کے معاملے پر اپنے گہرے دکھ، کرب اور غصے کا کھل کر اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: معاونِ خصوصی راشد نصر اللہ کی وائس چیئرپرسن پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن بیرسٹر امجد ملک سے خصوصی ملاقات
اجلاس کی توسیع
11 نومبر سے شروع ہونے والی کوپ 29 دراصل 22 نومبر کو اختتام پذیر ہونے تھی، لیکن جب تقریباً 200 ممالک کے نمائندے کسی حتمی معاہدے پر متفق نہ ہو سکے تو اس میں دوبارہ کوشش کے لئے توسیع کر دی گئی۔ تمام ممالک اگلی دہائی کے لئے ماحولیاتی مالی معاونت کے منصوبے پر اتفاق رائے سے معاہدے کے خواہشمند تھے۔ ابتدائی طور پر 250 ارب ڈالر فنڈ جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، لیکن غریب ممالک اس پر کافی پریشان نظرآئے۔
یہ بھی پڑھیں: “یحییٰ سنوار کے بعد حماس کا نیا سربراہ کون بن سکتا ہے؟”
آخری لمحوں کی کوششیں
24 نومبر کی رات، کوپ 29 ناکامی کے بالکل قریب تھی۔ عالمی میڈیا کے نمائندے ناکامی کی بریکنگ نیوز دینے کو تیار تھے کہ اچانک امیر ممالک نے معاہدے پر متفق ہونے کا اعلان کر دیا۔ امریکی، برطانوی، آسٹریلوی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے 2035 تک ہر سال ترقی پذیر ممالک کو 300 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ رقم گرانٹ اور منصوبوں کے لئے دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس افتخار چودھری ہر مسئلہ پر ازخود نوٹس لے لیتے، لیکن شوگر مل مالکان نے ججوں کو مسخر کر لیا، اصل مسئلہ کی سمجھ ہی آنے نہیں دی
معاہدہ اور چیلنجز
حتمی معاہدے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ تھی کہ زیادہ فنڈنگ کے لئے کس ملک سے تعاون مانگا جائے گا اور کتنی رقم گرانٹ کی صورت میں دی جائے گی؟ یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینچ (UNFCCC) کے سربراہ سائمن اسٹیل نے خوشی کا اظہار کیا، لیکن سماجی تنظیمیں اسے دھوکا قرار دے رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 2 اہم شخصیات کی ملاقات
امریکی انتخابات کا اثر
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح نے بھی باکو کانفرنس پر کافی اثر ڈالا۔ ان کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلی کو نظریاتی قرار دیے جانے کے بعد امیر ممالک کی جانب سے وعدوں میں تذبذب نظر آیا۔ مندوبین اور ایکٹوسٹس کودھچکا لگا کہ امریکی حکومت ٹرمپ کے دور میں موسمیاتی معاونت کے اہداف میں اپنا حصہ نہیں ڈالے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ہوائی جہاز کو ٹرک پر کراچی سے حیدرآباد کیوں لے جایا گیا؟ تفصیلات سامنے آگئیں
آنے والے چیلنجز
ترقی پذیر ممالک نئے اہداف کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک اور نوجوانوں کو اب اکٹھا ہو کر امیر ممالک کے احتساب کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ انہیں سڑکوں پر نکل کر عالمی سطح پر واجب الادا رقم کے حصول کے لئے لڑنا ہوگا۔
اختتام پر غور و فکر
امیر ممالک نے ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل سے متاثرہ ممالک کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا ہے۔ یہ کیسا کلائمٹ جسٹس ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملکوں میں کروڑوں زندگیاں داو پر لگی ہیں لیکن امیر ممالک خواب دکھا رہے ہیں۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔