ڈی چوک کے مناظر: جلی ہوئی ٹرک، ٹوٹی گاڑیاں، سڑک پر بکھرے شیشے اور عمران خان کے پوسٹرز کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد کا حال
وہ ٹرک جس پر منگل کی دوپہر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور سابق خاتون اول بشریٰ شامل تھیں، بدھ کی صبح ڈی چوک پر خاکستر حالت میں نظر آیا۔ شہر بھر سے کچرا اکھٹا کرنے والے بچے اور خواتین اس ٹرک کے سپیئر پارٹس اُتارتے اور اپنے تھیلوں میں بھرتے دکھائی دیے۔
جلا ہوا ٹرک، ٹوٹی پھوٹی مسافر اور پرائیویٹ گاڑیاں، سڑک پر جا بجا بکھرے گاڑیوں کے شیشے، زمین پر پڑے عمران خان کے پوسٹرز اور چند جوتے۔۔۔ یہ مناظر ڈی چوک کے ہیں جہاں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ تحریک انصاف کے مظاہرین کو ’مطالبات پورے تک‘ دھرنا دینا تھا۔
حکومت کی جانب سے منگل کی رات پاکستان تحریک انصاف کے ڈی چوک پر جمع ہونے والے کارکنان کے خلاف ’گرینڈ آپریشن‘ کی تصدیق کی گئی ہے۔ تاہم اس میں ہونے والے نقصانات کی تفصیلات بیان نہیں کی گئی ہیں۔
وفاقی وزرا نے اس آپریشن کے دوران 500 سے 550 مظاہرین کی گرفتاری کی تصدیق تو کی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس دوران مظاہرین میں شامل کتنے افراد زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے آفیشل ’ایکس‘ اکاؤنٹ اور متعدد رہنماؤں کی جانب سے اس آپریشن میں سکیورٹی حکام کی جانب سے ’بے دریغ فائرنگ‘ اور آنسو گیس کے استعمال کے باعث متعدد مظاہرین کی ہلاکت اور زخمی ہونے سے متعلق دعوے کیے جا رہے ہیں، اور ویڈیوز بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔
ان ویڈیوز میں بھاگتے ہوئے مظاہرین کو دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ اس موقع پر آنسو گیس کے بادل اور پس منظر میں شدید فائرنگ کی آوازیں بھی سُنی جا سکتی ہیں۔ تاہم نہ تو Uses in Urdu ان ویڈیوز کی آزادانہ تصدیق کر سکی ہے اور نہ ہی حکام نے اس سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں۔
گذشتہ روز ڈی چوک میں ہوئے آپریشن کی تفصیلات جاننے کے لیے Uses in Urdu نے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق یہ آپریشن رات 11 بجے کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت شروع کیا گیا، جس کی ابتدا میں سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو چاروں اطراف سے گھیر لیا اور اس کے بعد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے باقاعدہ آپریشن کیا گیا۔
آپریشن میں حصہ لینے والے اسلام آباد کے ایک پولیس افسر عثمان احمد کے مطابق آپریشن سے قبل قریب واقع تمام علاقوں کی مارکیٹوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ سٹریٹ لائٹس کو بھی بند کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہ کرتے ہوئے بتایا کہ دو سے ڈھائی گھنٹوں میں آپریشن مکمل کر لیا گیا جس کے نتیجے میں 500 سے زائد مظاہرین کو ڈی چوک اور اس کے اطراف سے گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مظاہرین کی گاڑیاں بلیو ایریا میں موجود تھیں اور ان میں سے ایک بھی گاڑی واپس نہیں گئی۔ ان کے مطابق مظاہرین کی جانب سے کچھ گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا، خاص طور پر اس کنٹینر کو جس پر بشریٰ اور علی امین گنڈا پور سوار تھے۔
پاکستان کے مقامی میڈیا اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی چند ویڈیوز میں آپریشن کے بعد کے ڈی چوک کے مناظر دکھائے گئے ہیں جن میں درجنوں گاڑیوں کو اسلام آباد کے جناح ایوینیو پر دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے متعدد گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق اس آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے سینکڑوں افراد کو اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں رکھا گیا ہے، اور انہیں سی آئی اے میں بھی منتقل کیا گیا ہے، جہاں سی آئی اے کی عمارت کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے مظاہرین کو مرحلہ وار عدالتوں میں پیش کیا جائے گا، اور عدالتوں سے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔