پاکستان کو جادو کی ”جپھی“ کی ضرورت ہے۔۔۔
اسلام آباد کی طرف مارچ
”چلو چلو اسلام آباد چلو، 24 نومبر کو اسلام آباد پہنچنا ہے، بھنے ہوئے چنے، خشک میوہ جات اور پانی ساتھ رکھیں۔ بڑے قافلوں اور ٹولیوں کے ساتھ رہیں، اپنے آس پاس نظر رکھیں، ریاستی ظلم اور فسطائیت کو ریکارڈ کریں اور اپنا ثبوت سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں۔ جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے، ہم ڈی چوک میں ہی رہیں گے اور اپنے ”خان“ کو واپس لے کر جائیں گے“۔
یہ وہ ہدایات تھیں جو پاکستان تحریک انصاف مسلسل اپنے کارکنان کو دے رہی تھی۔ فائنل کال کا فائنل معرکہ طے کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان 26 نومبر کی صبح اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، تقریباً اڑھائی دن کا سفر طے کرتے ہوئے انصافی کچھ ہی گھنٹوں میں اپنی ”منزل“ ڈی چوک پر پہنچے تو خوشی دیدنی تھی۔ کچھ کنٹینرز پر چڑھ گئے اور فوجی بھائیوں نے انہیں گلے لگا لیا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی بیماری کیا ہے اور کیا اس کا علاج صرف امریکہ اور سوئٹزرلینڈ میں ہی ممکن ہے؟
علوم و معلومات
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ابھی پیچھے تھی۔ اسلام آباد کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ”چائنا چوک“ وہ چوراہا ہے، جہاں سے آپ بائیں طرف مڑیں تو پیرسوہاوہ کے راستے خیبر پختونخوا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ناک کی سیدھ میں ڈی چوک جبکہ دائیں جانب مڑ کر آپ ”آبپارہ“ سے بری امامؒ یا پھر واپس زیرو پوائنٹ جا سکتے ہیں۔
”فائنل کال“ کی تحریر سے آراستہ کنٹینر چائنا چوک پر کھڑا تھا۔ شام چار اور پانچ بجے کے درمیان بشریٰ بی بی نے احتجاجی مظاہرین سے خطاب کیا۔ بشریٰ بی بی کے دائیں طرف علی امین گنڈا پور اور بائیں جانب عمر ایوب کھڑے تھے۔ بشریٰ بی بی نے کہا کہ ”ہم نے ڈی چوک پہنچنا ہے اور تب تک واپس نہیں جانا جب تک ہم ”خان“ کو رہا نہیں کرا لیتے۔ میں آخری سانس تک آپ کے ساتھ موجود رہوں گی“۔
مجمع شاندار اور جاندار تھا، کارکن چارج تھے، سب ”قیادت“ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟
یہ بھی پڑھیں: Israel Acknowledges Targeting of Its Military Bases in Iranian Missile Attacks
سوشل میڈیا کی اپیلیں
4 بج کر 51 منٹ پر پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہنگامی اپیل کی۔ ”اسلام آباد کے رہائشیوں سے ہنگامی اپیل کی جاتی ہے کہ ڈی چوک میں موجود مظاہرین کو فوری طور پر کھانے اور پانی کی ضرورت ہے، آپ کی مدد بہت اہم ہے، براہ کرم اشیاء براہ راست ڈی چوک پہنچائیں“۔
7 بج کر 8 منٹ پر سوشل میڈیا پر دوسری اپیل سامنے آئی۔ ”راولپنڈی اور اسلام آباد کے سپورٹرز سے درخواست ہے کہ ڈی چوک کے علاقے میں پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرین کیلئے سرچ لائٹس کا انتظام کریں، آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ“。
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ٹو کیس : بشریٰ بی بی کی ضمانت منسوخی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر
حکومتی موقف
رات تقریباً 8 بج کر 16 منٹ پر وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطاء تارڑ ڈی چوک پر میڈیا کے سامنے آئے اور کہا کہ ”حکومت پرتشدد مظاہرین سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گی، ایک عورت ان سب حالات کی ذمہ دار ہے، ریاست مقابلہ کرے گی، کس طرح کے لوگ احتجاج کرنے آئے ہیں، سب نے دیکھ لیا، یہ لاشیں گرانا چاہتے تھے، وزیراعظم کی واضح ہدایات تھیں کہ امن قائم رکھنا ہے، لاشیں نہیں گرنی چاہئیں“۔
15 سے 18 منٹ کی اس میڈیا ٹاک کے بعد اصل ”فیصلے“ ہوئے۔ رات 8 بج کر 35 منٹ سے لے کر 9 بجے تک کا ”وقت“ بہت اہم تھا۔ باخبر ذرائع اور عینی شاہدین کے مطابق اسی دورانیے میں پی ٹی آئی کی ”قیادت“ اور کارکنوں کے درمیان رابطہ ختم ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: فلپائن: سمندری طوفان 100 سے زائد لوگوں کی جان لے گیا، لاکھوں بے گھر، اموات زیادہ ہونے کا خدشہ
کارکنان کی تلاش
رات 9 سے 10 بجے کے درمیان کارکنان نے ”گمشدہ قیادت“ کی تلاش شروع کی۔ کنٹینر کی ”تلاشی“ لی گئی، گاڑیوں کو چیک کیا گیا، کسی کو کوئی ”قائد“ نہ ملا۔ بشریٰ بی بی، علی امین گنڈا پور اور عمر ایوب ”اندھیرے“ میں ”خاموشی“ سے پیر سوہاوہ کے راستے خیبر پختونخوا ”نکل“ چکے تھے۔ چائنا چوک سے ڈی چوک کے درمیان فاصلہ تقریباً 500 میٹر سے بھی کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 83-Year-Old Roshan Bibi Joins D-Chowk Protest After Arrest from Liaquat Bagh
پرتشدد رد عمل
دھرنے کا کوئی ”بندوبست“ نہ تھا۔ دریاؤں، چادریں، خیمے، لائٹس، پانی، کھانا، جیکٹس، کمبل، کناتیں کچھ بھی نہ تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان، سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم، علی محمد خان، اسد قیصر، شوکت یوسف زئی، شہرام ترکئی، عاطف خان اور بہت سے میڈیا کے سپرسٹار کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔
اختتام
اب ”میدان“ صاف تھا۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بلیو ایریا کے اردگرد کی مارکیٹیں بند کرائیں۔ میلوڈی فوڈ سٹریٹ، آبپارہ، سپر مارکیٹ، ستارہ مارکیٹ، جناح سپر مارکیٹ کو بند کروا دیا گیا۔
احتجاج ختم ہوا، کہانی تمام ہوئی۔ سیاست ہار گئی، طاقت جیت گئی۔ حکومت مظاہرین کو ڈی چوک پر آنے سے نہ روک سکی اور ہار گئی۔ پاکستان تحریک انصاف منزل پر پہنچ کر بھی دھرنا نہ دے سکی اور ”قیادت“ نے ”عام آدمی“ یعنی کارکن کی ”امید“ توڑ دی۔ ایک ”امید“ اب بھی باقی ہے۔