دیکھیں گے کتنی سرکاری رہائش گاہوں پر ریٹائرڈ ججز قابض ہیں؟ لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائیکورٹ میں عدالت عالیہ کے ججز اور جوڈیشل افسران کی سرکاری رہائش گاہوں کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں 6.2 شدت کے زلزلے نے تباہی مچا دی، 250 افراد جاں بحق، 500 سے زائد زخمی
عدالت کے ریمارکس
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت نے ریمارکس دیے کہ 60 ججز میں سے صرف 12 ججز کے لیے رہائش گاہیں موجود ہیں۔ عدالت یہ دیکھے گی کہ کتنے ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور سرکاری رہائش گاہیں ان کے قبضے میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے پہلے 2، اب 6 جہاز گرائے، اگلی بار 60 اور 600 بھی گرا سکتے ہیں: مصدق ملک
چیف جسٹس کی وضاحت
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ممبر پنجاب سروس ٹربیونل کو حکومت پنجاب نے رہائش دینی ہے، ہائیکورٹ نے نہیں۔ ہائیکورٹ نے ان سے گھر خالی نہیں کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون نے 30 سال بعد سگریٹ چھوڑی تو زندگی میں کیا تبدیلیاں آئیں؟
رہائش کی تقسیم پر سوالات
چیف جسٹس نے یہ بھی جاننا چاہا کہ جن کا استحقاق نہیں بنتا انہیں کیوں رہائش دی گئی؟ انہوں نے کہا کہ کیٹیگریز سے ہٹ کر گھر الاٹ ہوئے ہیں۔ ایڈیشنل سیکریٹری ویلفیئر نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق 237 رہائش گاہیں ہیں، جن میں کچھ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر آؤٹ آف ٹرن دی گئی ہیں۔ عدالت نے اس پر ریمارکس دیے کہ یہ غلط ہے۔
عدالت کا حکم
عدالت نے ایڈیشنل سیکریٹری ویلفیئر کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ یہ بتایا جائے کہ سرکاری گھر میرٹ پر الاٹ ہوئے یا نہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی۔