دیکھیں گے کتنی سرکاری رہائش گاہوں پر ریٹائرڈ ججز قابض ہیں؟ لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائیکورٹ میں عدالت عالیہ کے ججز اور جوڈیشل افسران کی سرکاری رہائش گاہوں کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کا گردوں کے مریضوں کیلئے ڈائیلائسز کارڈ لانچ کرنے کا اعلان
عدالت کے ریمارکس
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت نے ریمارکس دیے کہ 60 ججز میں سے صرف 12 ججز کے لیے رہائش گاہیں موجود ہیں۔ عدالت یہ دیکھے گی کہ کتنے ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور سرکاری رہائش گاہیں ان کے قبضے میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پڑوسی سے دشمن تک، جسٹس اعجاز الاحسن اور شریف خاندان کی کہانی
چیف جسٹس کی وضاحت
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ممبر پنجاب سروس ٹربیونل کو حکومت پنجاب نے رہائش دینی ہے، ہائیکورٹ نے نہیں۔ ہائیکورٹ نے ان سے گھر خالی نہیں کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: سلام دعا کے بعد میں نے کہا “سر! آپ بہت کم ظرف انسان ہیں” ان کے چہرے سے مسکراہٹ یوں غائب ہوئی جیسے کبھی آئی ہی نہیں تھی.
رہائش کی تقسیم پر سوالات
چیف جسٹس نے یہ بھی جاننا چاہا کہ جن کا استحقاق نہیں بنتا انہیں کیوں رہائش دی گئی؟ انہوں نے کہا کہ کیٹیگریز سے ہٹ کر گھر الاٹ ہوئے ہیں۔ ایڈیشنل سیکریٹری ویلفیئر نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق 237 رہائش گاہیں ہیں، جن میں کچھ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر آؤٹ آف ٹرن دی گئی ہیں۔ عدالت نے اس پر ریمارکس دیے کہ یہ غلط ہے۔
عدالت کا حکم
عدالت نے ایڈیشنل سیکریٹری ویلفیئر کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ یہ بتایا جائے کہ سرکاری گھر میرٹ پر الاٹ ہوئے یا نہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی۔