دیکھیں گے کتنی سرکاری رہائش گاہوں پر ریٹائرڈ ججز قابض ہیں؟ لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائیکورٹ میں عدالت عالیہ کے ججز اور جوڈیشل افسران کی سرکاری رہائش گاہوں کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت نے 315دیہی مراکزصحت کوہسپتالوں کا درجہ دیدیا ، کیا کیا سہولیات فراہم کی جائیں گی ؟ اہم تفصیلات جانیے
عدالت کے ریمارکس
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت نے ریمارکس دیے کہ 60 ججز میں سے صرف 12 ججز کے لیے رہائش گاہیں موجود ہیں۔ عدالت یہ دیکھے گی کہ کتنے ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور سرکاری رہائش گاہیں ان کے قبضے میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جب 13 سالہ طالبہ پر پیغمبرِ اسلام کی توہین کا جھوٹا الزام لگا، جس کے نتیجے میں فرانسیسی استاد کو قتل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس کی وضاحت
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ممبر پنجاب سروس ٹربیونل کو حکومت پنجاب نے رہائش دینی ہے، ہائیکورٹ نے نہیں۔ ہائیکورٹ نے ان سے گھر خالی نہیں کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل بپن راوت کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ انسانی غلطی سے پیش آیا، 3 سال بعد رپورٹ پیش کردی گئی
رہائش کی تقسیم پر سوالات
چیف جسٹس نے یہ بھی جاننا چاہا کہ جن کا استحقاق نہیں بنتا انہیں کیوں رہائش دی گئی؟ انہوں نے کہا کہ کیٹیگریز سے ہٹ کر گھر الاٹ ہوئے ہیں۔ ایڈیشنل سیکریٹری ویلفیئر نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق 237 رہائش گاہیں ہیں، جن میں کچھ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر آؤٹ آف ٹرن دی گئی ہیں۔ عدالت نے اس پر ریمارکس دیے کہ یہ غلط ہے۔
عدالت کا حکم
عدالت نے ایڈیشنل سیکریٹری ویلفیئر کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ یہ بتایا جائے کہ سرکاری گھر میرٹ پر الاٹ ہوئے یا نہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی۔