سیاسی سموگ: لاشیں مل گئیں۔۔۔ تمام کارڈ کس کے ہاتھ میں تھے۔۔؟

مفلسی اور سیاست
موجودہ حالات کے مطابق شعر کا مصرعہ یہ ہونا چاہیے:
مفلسی ”حسِ سیاست“ کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی
”بھوک“ اختیار، اقتدار کی بھی ہوتی ہے اور ان کا بھی آداب سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ قریبی تو بالکل نہیں، دور پار کا شاید ہو۔۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر نے اپنے 15 مریضوں کو قتل کردیا، شواہد مٹانے کیلئے متاثرین کے گھروں کو آگ بھی لگاتا رہا
ڈی چوک کی صورتحال
اور ڈی چوک پر ”بھوک“ بھی تھی۔۔ جو قیامت کی نظر رکھتے ہیں انہیں دکھائی دی لیکن نہ مری نہ زخمی ہوئی۔
ڈی چوک پر سردی بھی تھی۔۔۔ لیکن دھرتی ماں کو”سیاسی سموگ“ نے لپیٹ میں لے لیا۔۔۔
”ماہرین“ کا دھیان کسی اور طرف ہے۔۔۔
دھواں سرحد پار سے نہیں اندر سے اٹھ رہا ہے۔۔۔
دم گھٹ رہا ہے۔۔۔ سانس لینا بھی محال ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران باغیوں کو پھانسیاں دی جاتی تھیں اور لاشوں کو لٹکتا چھوڑدیا جاتا تھا
معاشی نقصانات
بھارت کو سموگ سے سالانہ 95 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا اور لاکھوں افراد کی جان کو خطرہ ہے جبکہ ہمیں ”سیاسی سموگ“ یعنی احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور لاک ڈاؤن سے روزانہ کی بنیاد پر 200 ارب روپے سے زائد کے نقصان ہو گیا۔ جی ڈی پی کی مد میں 144 ارب، برآمدات 16 ارب اور ٹیکس ریونیو کی مد میں 26 ارب کا نقصان۔
چند دن راستے بند، سامان کی ترسیل بند، منڈیاں بند، صنعتیں بند، کاروبار بند، تاجروں کا کروڑوں کا نقصان۔۔ کروڑوں زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔۔۔۔ پھر بھی ”آوے ای آوے جاوے ای جاوے“ کا ورد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہری کو دوست سے ملنے تھانے آنا مہنگا پڑ گیا
دھرنے کے نتائج
24 نومبر آئی اور چلی گئی۔۔۔ عوام کی حفاظت ہو نہ ہو، ڈی چوک کی حفاظت ہو گئی۔۔۔ لاشیں بھی مل گئیں۔۔۔ زخمی بھی مل گئے۔۔۔ کسی کو فتح مل گئی۔۔۔ کسی کو ہار میں بھی جیت کا مزہ۔۔۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
یہ بھی پڑھیں: قوم کو اکٹھا کرنا ہے تو بانی کو رہائی دی جائے، مشتاق غنی
سیاست کا جوڑ توڑ
کئی مر گئے مگر سوال زندہ کر گئے۔۔۔۔
تمام ”کارڈ“ کس کے ہاتھ میں تھے۔۔؟
کون کمزور اور کون طاقتور ثابت ہوا۔۔؟
وہ ”وعدے“ یا”انڈر سٹینڈنگز“ کیا تھیں جن کی بنیاد پر بعض کو رہائی ملی، ”سیاسی لاؤنچنگ“ کا ڈھنڈورا کیوں پیٹا گیا ۔۔۔؟
یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے اضافے کا امکان: نجی ٹی وی
احتجاج کی اہمیت
خیبر پختونخوا سے جواب آ گیا ہے۔۔۔ جانے والے ملک سے باہر نہیں گئے، واپس آنے کیلئے گئے ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہے ہیں ”تشدد بھی ہم پر ہوں اور مقدمات بھی ہم پر ہوں، ہم بھاگے نہیں، آپ نے جو کرنا تھا کرلیا اب ہماری باری ہے۔”
یہ بھی پڑھیں: آئسکو نے بجلی بلوں میں پی ٹی وی لائسنس فیس ختم کر دی
عوام کی رائے
عوام میں غصہ ہے۔۔۔ ابھی ختم نہیں ہوا۔۔۔ الیکشن میں ووٹ ڈالنے بھی نکلے اور ”ہر کال“ پر نکل رہے ہیں۔۔۔ سڑکوں پر ڈنڈا، گالی، گولی سب کھا رہے ہیں۔۔۔ اب کوئی شکوہ یا طعنہ نہیں دے سکتا کہ باہر نہیں نکلتے۔
یہ بھی پڑھیں: یک طرفہ محبت ناسمجھی اور جذباتی کمزوری ہے؛ پروین اکبر
سوالات کا ہتھیار
آج کے دور کا اہم ہتھیار”سوال“ ہے جسے پوچھنے کی آزادی چھینی نہیں جا سکتی اور عوام اس ”ہتھیار“ سے لیس ہیں۔۔۔
”فائنل کال“ بھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: لڈو کھیلتے ہوئے جھگڑا، 10 سالہ بچے نے دوست کی جان لے لی
پہلا قدم
فیصلہ تو کرنا ہی ہو گا۔۔۔ ملک کو ”جاگیردارانہ جمہوریت“ چاہیے یا اصلی جمہوریت۔۔؟
حبیب جالب کی یاد
آخر میں پھر حبیب جالب یاد آ گئے:
ایسے افکار بھی زندہ نہ ہوں گے جن سے
چند لوگوں ہی کی تسکین کا پہلو نکلے
میں ضرور آؤں گا ایک عہد حسیں کی صورت
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں