کئی راتیں رویا، تنہائی کاٹی، دل پر بوجھ رہا، اتنے دکھ سہے کہ بحرالکاہل بھی داد دیتا رہا کہ تیرے دکھ مجھ میں اترتے تو شاید ماؤنٹ ایورسٹ کو بھی ڈبو دیتا
مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 3
یہ بھی پڑھیں: Government’s Reaction to the Dramatic Return of Chief Minister Khyber Pakhtunkhwa
بچپن کی یادیں
میرے والد نے اپنے بچپن کی باتیں مجھے سنائی تھیں۔ اپنے والد اور بابا کے قصے بتائے تھے۔ میں نے وہ نوٹ بھی کیے تھے، مگر جب ان کی ضرورت پڑی تو مل نہ سکے۔ والد کے ایک ہی دوست حیات ہیں، وہ بھی ماشاللہ 94 برس کے ہیں، لیکن یاداشت اب بھی بلا کی ہے۔ انہوں نے وہ سب باتیں سنا ڈالیں جو میرے والد نے سنائی تھیں۔ یہ سرمایا بھی اس کتاب میں شامل کرکے میں نے اس نسل کا قرض بھی اتارنے کی کوشش کی ہے جن کا پاکستان بنانے میں کوئی نہ کوئی کردار تھا۔ اللہ انکل سیلم شاہ کو سلامت رکھے۔ آمین۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں مظاہرین کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ، پی ٹی آئی کے سینکڑوں کار کنان گرفتار
زندگی کے دکھ
میں زندگی کی کئی راتیں رویا ہوں۔ تنہائی کاٹی ہے۔ میرے دل پر تکلیف اور بوجھ کا بحر الکاہل رہا ہے۔ اتنے دکھ سہے کہ بحرالکاہل بھی داد دیتا رہا کہ میں تو غصے میں لہروں کو سینکڑوں فٹ اوپر اچھال دیتا ہوں، جہازوں کو غرق کر دیتا ہوں اور ایک تو ہے کہ سب کچھ حوصلہ سے خود پر برداشت کر گیا۔ تیری دکھ اگر مجھ میں اترتے تو شاید میں ماؤنٹ ایورسٹ کو بھی ڈبو دیتا۔ خیر زندگی ہے۔ گلے شکوؤں، دکھ دینے والوں کا بھی کیا کر سکتا ہوں۔ بس دعا ہے اللہ اسے ہدایت دے۔ میں واحد مرد ہوں جو بڑا کمزور اور چھوٹے دل کا تھا۔ کچھ نہ کہہ سکا۔ بس اللہ کے کرم سے صبر کا پہاڑ ہی رہا۔ مجھے یقین ہے اللہ صبر کا پھل ضرور دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ اور نیتن یاہو قریبی دوست، یوکرین کی جنگ روکنا ترجیح ہوگی، ملیحہ لودھی
سچ کی حقیقت
تلخ حقیقت ملا حظہ ہو سچ بولنا اس خطے میں ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ وہ بھی اس مملکت میں جو خدا کا تحفہ گنی جاتی ہے کہ یہ رمضان المبارک کی سب سے جلیل القدر رات میں وجود میں آئی۔ بقول شوکت تھانوی؛ "سچ بولنا دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھتے جائیے مصیبت میں آپ ان ہی کو مبتلا پائیں گے جو سچ بولنے والے گزرے ہیں۔ قانون بھی انہی کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔ جھوٹ بولتے رہیے، دھوکے دیتے جائیے، بے امانیاں کرتے جائیے۔ سب مطمئن رہیں گے۔"
یہ بھی پڑھیں: طلباء کیلئے مزید خوشخبریاں لا رہے ہیں،جنوری تک لیپ ٹاپ سکیم بھی لانچ کریں گے:وزیر تعلیم
لکھنے کا آغاز
لکھنا شروع کیا تو میری پہلی اور تہہ دل سے کوشش تھی کہ میں سچ ہی لکھوں۔ ان باتوں کا تذکرہ کروں جو ان سالوں میں پیش آئے یا جن سے سامنا ہوا۔ لکھنا شروع کیا تو میری منصوبہ بندی کے برعکس واقعات اور یادیں آمڈتی چلی آئیں اور یہ آپ بیتی نہ چاہتے ہوئے بھی طویل ہوتی گئی۔ جب بھی لکھنے بیٹھتا تو کوئی نہ کوئی نئی بات یاد آ جاتی جسے نہ لکھنا نا مناسب تھا یوں صفحات بڑھتے چلے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کے پانی پر کسی کو ڈاکا ڈالنے نہیں دیں گے: آغا سراج درانی
ریٹائرمنٹ کے بعد کا سفر
ریٹائرمنٹ کے تین سال بعد لکھنے کا خیال آیا تو پہلا مسودہ چھ ماہ میں لکھ چکا تھا اور اگلے کچھ ماہ اس مسودہ کی نوک پلک درست کرتے گزر گئے اور پھر کچھ وقت کتاب کی چھپائی کے لیے پیسے اکٹھے کرنے میں گزر گیا۔ لکھنا آسان اور چھپوانا مشکل ہے کہ مہنگائی نے چیزیں پہنچ سے بہت زیادہ باہر کر دی ہیں۔ آپ بیتی کبھی بھی آپ تک نہ پہنچتی اگر میرا یار غار آغا بابر سعید اور اس کے دوست زاہد خاں اور شہاب بھائی کراچی والے (سبھی کیلے فورنیا امریکہ رہتے اور ماشا اللہ خوشحال ہیں) رقم مہیا نہ کرتے۔
کتاب کی اشاعت
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔