جب چند روٹیاں غزہ میں منگیتر کی طرف سے دیا جانے والا مہنگا ترین تحفہ بن جائیں۔
خان یونس میں نصف شب کا وقت ہے اور یہاں کام کرنے والی واحد بیکری کے سامنے لوگوں کی قطاریں لگنے لگی ہیں۔ وہ یہاں اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے کچھ روٹی ملنے کی امید میں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔
جب بازار میں آٹا نایاب ہو گیا اور اس کی قیمتیں دگنی ہو گئیں، تو یہ بیکری ان کے لیے خوراک کا ایک اہم ذریعہ بن گئی۔
بیکری کے سامنے قطار میں کھڑے ہونے والوں میں محمد الشنا بھی شامل ہیں، جنھیں تقریباً ایک ماہ سے روٹی نہیں مل سکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آٹے کے تھیلے کی قیمت 400 شیکل تک پہنچ گئی ہے اور میرے پاس ڈھائی ماہ سے آٹا نہیں ہے۔ قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور ہر دن ہماری استطاعت سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔
’چیزوں کی قیمتیں ناقابلِ تصور حد تک جا چکی ہیں۔ ہم روٹی کے لیے نو، نو گھنٹوں سے زیادہ کھڑے رہتے ہیں۔‘
بحران کی الٹی گنتی شروع
روٹی کا بحران اسرائیلی فوج کی طرف سے عائد کی گئی سخت پابندیوں کے ساتھ شروع ہوا کیونکہ ستمبر اور اکتوبر 2024 میں یہودیوں کی تعطیلات کی وجہ سے کراسنگ کئی دنوں تک مکمل طور پر بند کر دی گئی تھی۔
اس کے بعد غزہ کی پٹی میں پہنچنے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد کم ہو گئی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے مطابق یہاں یومیہ 30 ٹرکوں سے زیادہ کی اجازت نہیں جو کہ شہریوں کی ضروریات کا صرف چھ فیصد پورا کرتی ہے۔
جیسے جیسے ٹرک کی آمد میں کمی شروع ہوئی، غزہ پٹی تک پہنچنے والے آٹے کی مقدار کم ہوتی گئی، جس نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا کیونکہ شہریوں کے پاس اب روٹی بنانے کے لیے اپنے حصے کا آٹا حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا جبکہ بیکریوں تک اس کی مناسب مقدار کی رسائی مفقود ہے۔
جب اسرائیلی فوج نے آٹے سے لدے امدادی ٹرکوں کو اندر جانے کی اجازت دی تو کریم شالوم کراسنگ کے قریب 109 ٹرکوں کے قافلے میں چوری کر لیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک کے مطابق جنگ کے شروع ہونے کے بعد اس واقعے میں 98 ٹرکوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اس سے بھوک کا بحران مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ یہ امداد بازاروں میں بہت ہی قلیل مقدار میں پہنچ رہی ہے جس کی وجہ سے یہ اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر فروخت ہو رہی ہے۔
اس سے غزہ کی پٹی کے لاکھوں شہریوں کے لیے آٹے کا حصول اور خود روٹی بنانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
غزہ میں جنگ کے آغاز سے ہی اس قسم کی مشکلات رہی ہیں لیکن اس صورت حال میں غزہ پٹی میں چلنے والی چند بیکریوں پر دباؤ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گھی اور آئل کی قیمتوں میں 54 سے 60 روپے کلو اضافہ
ایک روٹی کے لیے گھنٹوں کا انتظار
ام محمد ال ہندی کہتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے 12 افراد کے لیے ’ایک روٹی‘ کی خاطر صبح ڈیڑھ بجے سے قطار میں کھڑی ہیں۔
ام محمد مزید کہتی ہیں کہ ’میرے شوہر بیمار ہیں اور حرکت نہیں کر سکتے اور ہمارے گھر میں آٹے کی فراہمی گذشتہ سات ماہ سے بند ہے۔ میرے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے چاول یا دال کا ایک دانہ بھی نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ جنگ ختم ہو جائے گی۔
’ہم صرف امن چاہتے ہیں۔ ہم نے جتنا نقصان اٹھایا ہے وہ کافی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا 12 سالہ بیٹا کھو دیا۔‘
روٹی کے حصول کے لیے قطار میں ام محمد کی طرح پانچ بچوں کی والدہ نریمان القرا بھی ہیں۔ ان کا حال بھی ان سے مختلف نہیں ہے۔ وہ نصف شب بارہ بجے سے ہزاروں کی قطار میں کھڑی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے بچوں کو دوپہر سے پہلے چند روٹیاں مل جائیں۔
نریمان کہتی ہیں: ’میرا بڑا بیٹا آٹھ سال کا ہے۔ میں انھیں کیسے کھلاؤں؟ میں ہر روز بیکری کے سامنے لائن میں کھڑی ہوتی ہوں، اور بعض اوقات مجھے بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے روٹی نہیں مل پاتی، جہاں کچھ لوگ دلالوں کے ذریعے روٹی خریدتے ہیں۔‘
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) نے تصدیق کی ہے کہ کیمپوں اور پناہ گاہوں میں بے گھر ہونے والوں کے حالات افسوسناک ہیں۔ اور بین الاقوامی اداروں کی بے گھر ہونے والے افراد کی ضروریات پوری کرنے میں ناکامی کی وجہ سے انھیں فاقے اور سردی کا سامنا ہے۔
جنوبی غزہ کی پٹی کے بے گھر افراد میں سے ایک روضہ علی الاسطل کہتے ہیں: ’ہم چاہتے ہیں کہ امداد چوری یا رکاوٹ کے بغیر براہ راست پہنچ جائے۔ ہم صبر کر سکتے ہیں لیکن بچے کیسے صبر کر سکتے ہیں؟‘
جنگ کے دوران روٹی محبت کی علامت ہے
موسیٰ کے لیے بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے جنگ کے دوران ہی اپنی منگنی کا اعلان کیا تھا۔
اس رسم کے تحت یہ رواج ہے کہ مرد اپنی منگیتر یعنی ہونے والی دلہن کے لیے پہلا تحفہ کوئی قیمتی تحفہ دیتا ہے۔ اس موقعے کے لیے منگیتر نے جس تحفے کا انتخاب کیا وہ چند ’روٹیاں‘ تھیں۔
اپنی منگیتر کو اس کا منھ مانگا تحفہ دینے کے لیے موسی کو ایک ہجوم کے درمیان گھنٹوں کھڑا رہنا پڑا اور اس ایک روٹی کو وہ جنگ کے دوران حاصل کرنے والی سب سے قیمتی چیز سمجھتے ہیں۔
ہالا کہتی ہیں: ’میری منگنی کے دو دن بعد جنوب میں قحط پڑ گیا اور میں مسلسل سات دن تک روٹی نہ کھا سکی۔
’میرے پیٹ میں بھوک سے درد ہونے لگا۔ میں نے یہ بات اپنے منگیتر کو بتائی جو خود بھی بھوکا تھا۔‘
دوسری جانب ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کے تعاون سے 19 بیکریوں میں سے صرف سات کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے دو دیر البلاح میں، ایک خان یونس میں اور چار غزہ سٹی میں چل رہی ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ بہت سی دوسری بیکریوں کو آٹے کی قلت کی وجہ سے کام بند کرنا پڑا ہے۔