سفاک قاتلوں کی داستانیں: والدین یا بچوں کے بے رحمی سے قتل کرنے والے سیریل کلر کیوں ایسا کرتے ہیں؟
انتباہ: یہ تحریر صارفین کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے
یہ 20 اگست سنہ 1989 کی بات ہے۔ شام کو ایرک اور لائلے مینینڈیز دونوں بھائی چلتے ہوئے امریکہ میں بیورلی ہلز میں اپنے گھر پہنچے جہاں ان کے والدین 'دی سپائی وھو لَوڈ می' فلم دیکھ رہے تھے۔
انھوں نے اپنے والدین کے نزدیک پہنچ کر انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ انھیں بغیر پرول کے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک عرصے تک اس واقعے کا چرچا رہا لیکن پھر یہ لوگوں کے ذہن سے محو ہو گیا۔
لیکن پھر رواں سال ستمبر میں وہ نیٹ فلکس کی ایک ڈرامہ سیریز کی ریلیز کے بعد خبروں میں ہیں کیونکہ اس دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اب ان کا مقدمہ نئے شواہد کی وجہ سے از سر نو زیر غور ہے کیونکہ پہلے سماعت کے دوران بعض شواہد پیش نہیں کیے جا سکے تھے۔
گذشتہ پیر کو 28 سال کے بعد ان بھائیوں نے جیل سے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے ایک سماعت میں حصہ لیا۔ اس سماعت کے دوران ان کی ایک چچی نے ان کی رہائی کی درخواست کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'میرے خیال میں اب ان کے گھر جانے کا وقت آگیا ہے۔'
جبکہ ان کے چچا نے دونوں بھائیوں کو 'بے رحم سفاک قاتل' کہا ہے اور ان کے خیال سے ان دونوں کا زندگی بھر سلاخوں کے پیچھے رہنا ہی بہتر ہے۔
میں نے جب یہ سب منظر عام پر آتے دیکھا تو جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ لوگوں کا باہم متخالف رویہ تھا اور یہ رویہ ان کے اپنے خاندان کے افراد نے بھی دیکھا۔
کیا نیٹ فلکس ڈرامے میں پیش کیے جانے والے مینینڈیز برادران واقعی ’شیطان‘ ہیں یا یہ ممکن ہے کہ وہ بدل گئے ہوں، جیسا کہ ان کی چچی کا دعویٰ ہے؟
بریڈمور سمیت برطانیہ بھر کے نفسیاتی ہسپتالوں اور جیلوں میں فرانزک سائیکاٹرسٹ اور سائیکو تھراپسٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنے 30 برسوں کے دوران میں نے ایسے سینکڑوں مجرموں سے بات کی ہے جنھوں نے خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ میں نے انھیں ذمہ داری لینے میں مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک ناممکن عمل ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ ’ان کی یقیناً کوئی مدد نہیں کی جا سکتی؟ کیا وہ اسی طرح پیدا نہیں ہوئے؟‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف غیر معمولی درندہ صفت ہی کسی دوسرے شخص کو خوفناک نقصان پہنچا سکتا ہے، یعنی ٹیڈ بنڈی اور روز ویسٹ سے لے کر ہیرالڈ شپ مین اور مینینڈیز برادران جیسے قاتل ایک طرح سے انسان نہیں ہیں۔
اور جب میں نے پہلی بار اس شعبے میں کام کرنا شروع کیا تو میں نے بھی یہ فرض کر لیا تھا کہ جن لوگوں نے پرتشدد واقعات اور قاتلانہ کارروائیوں میں حصہ لیا ہے وہ ہم سے بہت مختلف ہیں۔
لیکن اب میں ایسا نہیں سوچتی۔
میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ پرتشدد ذہنوں کی اصل وجوہات کو حقیقی جرائم پر مبنی ڈراموں یا کورٹ روم ٹرانسکرپٹس میں نہیں دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے جس پر میں نے ریتھ لیکچرز میں جائزہ پیش کیا ہے اور یہ ریڈیو 4 پر چار اقساط میں نشر کیا جا رہا ہے۔
میں نے خود دریافت کیا ہے کہ کسی پر محض ’شیطان صفت‘ ہونے کا لیبل لگانے سے حقیقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔
'کمزور' سیریئل کلر
سنہ 1996 میں بریڈمور میں سائیکو تھراپی کی تربیت مکمل کرنے کے فوراً بعد میں نے ٹونی نام کے ایک ذہنی مریض سے ملاقات کی۔ ٹونی نے تین آدمیوں کا قتل کیا تھا جن میں سے ایک کا تو اس نے سر قلم کر دیا تھا۔
میں نے سیریئل کلرز کے بارے میں بہت ساری وحشت ناک رپورٹیں پڑھی تھیں لیکن اُس وقت کسی ایسے فرد سے بات کرنے یا انھیں تھراپی دینے کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب تھیں۔ اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ سوال بھی تھا کہ آیا اس کا کوئی فائدہ بھی ہے۔ اور ہم یہ کیسے جانیں گے کہ کوئی 'بہتر' ہوا بھی ہے؟
وہ اپنی سزا کا 10واں سال کاٹ رہا تھا اور حال ہی میں تین دیگر قیدیوں نے اس پر تیز کیے گئے ٹوتھ برش سے وار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
ہماری پہلی ملاقات کے دوران زیادہ تر خاموشی رہی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ رکھے تھے اور میری آنکھوں سے آنکھیں ملانے سے گریز کرتا رہا تھا۔ جب اس نے نظریں اوپر اٹھائیں تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں اتنی گہری تھیں کہ وہ تقریباً سیاہ دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ ڈپریشن اور ڈراؤنے خوابوں میں مبتلا تھا۔ پھر بالآخر خاموشی توڑتے ہوئے اس نے کہا: 'میں سوچ رہا تھا کہ یہاں امن و سکون ہوگا۔ میرے ساتھ والے کمرے میں ایک آدمی ہے جو رات بھر چیختا رہتا ہے۔'
اسے اپنے بار بار آنے والے ڈراؤنے خواب کے بارے میں بتانے میں مہینوں لگ گئے۔ اس خواب میں وہ ایک نوجوان کا گلا گھونٹ رہا ہوتا ہے جو اس کے باپ میں بدل جاتا ہے۔ اس بیان نے ہمیں اس کے جرائم اور اس کے خاندان کے بارے میں بات کرنے کا راستہ کھولا کہ اس کا بچپن کیسا تھا اور اسے کس طرح اپنے والد کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جس کے بعد اس نے دوسروں کو دھمکانا شروع کر دیا تھا۔
بعد میں مجھے پتا چلا کہ 'دوسرے کمرے میں' رات کو چیخنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ خود ٹونی ہی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ شاید وہ رات میں چیخ چیخ کر ایسی باتیں کرنا چاہتا ہے جس کا وہ اظہار نہیں کر سکتا۔ اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپا لیا جس سے اس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’نہیں۔۔۔ میں نہیں چاہتا۔۔۔ میں اتنا کمزور نہیں ہو سکتا۔'
میں نے ٹونی کے ساتھ 18 مہینوں تک کام کیا اور اس کی ایمانداری پر مجھے اس کے ساتھ ہمدردی ہے اور احترام کا جذبہ ہے۔ لیکن میرے ذہن میں وہ سب خوفناک چیزیں بھی ہیں جو اس نے کی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے خود اس تھراپی کی درخواست کی تھی یہ بھی اس بات کی علامت تھی کہ اس کا ایک حصہ کمزور ہونے کے لیے تیار تھا۔
اس ابتدائی تجربے نے مجھے سکھایا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنا برا تھا، جن میں سیریئل کلرز بھی شامل ہیں، اگر وہ اپنے ذہنوں کے بارے میں متجسس ہیں تو ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ انتشار میں معنی تلاش کر سکیں اور ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ جیتنے کے بعد آسٹریلوی کپتان کی گفتگو
بُرے لوگ بمقابلہ بُرا ذہن
جب سیریئل کلرز کا ذکر ہوتا ہے تو عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ سائیکوپیتھ یا ذہنی مریض ہوتے ہیں، لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعریف ٹونی پر لاگو ہوتی ہے۔ سائیکوپیتھس کی مدد لینے کی خواہش نہ ہونے کی وجہ سے، وہ ایسی کسی چیز کی درخواست نہیں کریں گے جس کو وہ توہین آمیز سمجھیں، اس لیے ٹونی اس تعریف پر پورا نہیں اترتا کیونکہ اس نے علاج کے لئے خود سے درخواست کی تھی۔
میرے کیریئر میں جن سائیکوپیتھس سے میری ملاقات ہوئی، وہ نہ تو غیر معمولی طور پر ذہین تھے، نہ ہی سماجی طور پر ماہر، اور نہ ہی دلکش تھے۔ ان میں عام طور پر ہمدردی کی کمی اس قدر تھی کہ وہ یہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے کہ ان کے اعمال دوسروں پر کیا اثرات ڈالتے ہیں۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ کم قتل کرنے والے درحقیقت سائیکوپیتھ نہیں ہوتے، خاص طور پر مینینڈیز برادران جیسے گھریلو قتل کے مرتکب افراد پر یہ بات صادق آتی ہے۔
ٹونی کی کہانی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ لوگ جو بچپن میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، پرتشدد جرائم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ مینینڈیز بھائیوں نے عدالت میں یہ دلیل دی تھی کہ وہ اپنے والد کے ہاتھوں جسمانی اور جنسی استحصال کا شکار ہوئے، جسے عمر قید کی سزا سنانے سے پہلے مسترد کر دیا گیا تھا۔
اس کے باوجود آبادی کی ایک بڑی تعداد بچپن میں شدید صدموں کا سامنا کرتی ہے۔ کچھ مطالعے کے مطابق برطانیہ میں 10 سے 12 فیصد افراد اس کا تجربہ کرتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم لوگ ہی مجرمانہ پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کچھ افراد بچپن کے صدمے کا جواب تشدد سے کیوں دیتے ہیں جبکہ بہت سے نہیں دیتے؟ کیا واقعی یہ لوگ 'عفریت' ہیں؟ یا، جیسا کہ میرے کچھ مریضوں نے پہلے کہا: 'میں نے بُرے کام کیے ہیں، لیکن کیا یہ مجھے بُرا بناتا ہے؟'
سائنسی شواہد نہیں ملتے کہ کچھ لوگ 'برے' ہی پیدا ہوتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، کوئی 'بُرا شخص' جیسا وجود نہیں ہے، بلکہ صرف دماغ کی خراب حالتیں ہوتی ہیں۔
لہذا، عمومی طور پر، میں اس قسم کے سوال کے جواب میں کہتی ہوں کہ کسی کے ساتھ بھی اس نوعیت کی ذہنی حالت ہو سکتی ہے جس میں نفرت، حسد، لالچ اور غصے جیسے جذبات غالب ہوں۔
ہم میں سے بیشتر کے پاس ظلم کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کچھ خطرے کے عوامل ایسے ہیں جو لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں، جبکہ کچھ افراد کو انتہائی تشدد پر اکساتے ہیں۔ یہ عوامل مخصوص ہوتے ہیں۔ یہ سائیکل کے تالا نمبر کی طرح ہیں۔ جس طرح سائیکل کا تالا کھولنے کے لئے تمام نمبر صحیح ترتیب میں ہونے چاہئیں، اسی طرح تشدد کے وقوع سے پہلے کئی خطرے والے عوامل مشترک ہوتے ہیں۔
سب سے عام خطرے کے عوامل جوانی اور مرد ہونا ہے (جن میں جارحیت اور جذبات کی اعلی شرح ہوتی ہے)؛ منشیات اور شراب کی زیادتی؛ خاندانی تنازعات کی تاریخ؛ اور قواعد توڑنے کی مجرمانہ تاریخ ہونا وغیرہ۔ دماغی بیماری کی بنیاد پر دماغ میں خلل بھی ایک خطرہ ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ کافی نایاب ہے۔
آخر میں، قتل کے لئے سب سے اہم خطرے کا عنصر شکار کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہے، خاص طور پر تعلقات کے تنازع کی تاریخ۔ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ خواتین اکثر مرد ساتھی یا گھر کے افراد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، اور زیادہ تر بچے اپنے والدین یا سوتیلے والدین کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ اجنبیوں کا قتل بہت کم ہوتا ہے، اور اگر ایسا ہو تو یہ ایسے حالات میں ہوتا ہے جہاں مجرم شدید ذہنی بیمار ہوتا ہے۔
اس لیے سائیکل کے تالے کے سیدھ میں آنے والے پہلے دو نمبر سماجی و سیاسی ہو سکتے ہیں، اور اگلے دو مجرم کے لیے مخصوص ہو سکتے ہیں۔
حتمی نمبر جو تالے کے کھلنے کا سبب بنتا ہے وہ کچھ ایسا ہو سکتا ہے جو شکار اور مجرم کے درمیان ہوتا ہے، اب یہ چاہے کوئی اوچھا تبصرہ ہو، کوئی کارروائی جسے رسک کے طور پر سمجھا جاتا ہو، یا فٹبال کے خراب نتیجے جیسی آسان چیز۔ (لنکاسٹر یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جب انگلینڈ کی ٹیم ہار جاتی ہے تو گھریلو بدسلوکی میں 38 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔)
جب سائیکل کے تالے کے چاروں نمبر ایک سیدھ میں آ جاتے ہیں تو جو چیز کھل کر سامنے آتی ہے وہ اکثر جذبات کی ایک لہر ہوتی ہے جو انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر دیتی۔
اچھی خبر یہ ہے کہ پچھلے 20 سالوں کے دوران برطانیہ اور دیگر جگہوں پر قتل کی شرح میں کمی آئی ہے، جو کہ زیادہ تر بائیسکل لاک کے کھلنے کے عوامل میں سے کچھ میں تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف کرمینالوجی کے ڈائریکٹر پروفیسر مینوئل آئزنر کہتے ہیں: 'برطانیہ میں 2004 کے بعد سے قتل کی شرح میں کمی آئی اور یہ کمی امریکہ، سپین، اٹلی اور جرمنی میں بھی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ جزوی طور پر طرز زندگی میں تبدیلیاں ہیں جیسے کہ نوعمروں میں شراب نوشی اور بھنگ کے استعمال میں کمی۔
'جزوی طور پر موبائل فونز اور سی سی ٹی وی کیمروں جیسی ٹیکنالوجیز کا اثر بھی ہے، جو خطرے کے حالات میں امداد تلاش کرنے کے لیے نگرانی کے مواقع میں اضافہ کرتے ہیں۔'
اس کے علاوہ وہ اس کمی کو سماج میں آنے والی وسیع تر تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں جس میں بلیئنگ کی مخالفت کرنے والے ثقافتی اصولوں کا فروغ اور خواتین، لڑکیوں اور بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام شامل ہیں۔
بہر حال ایسے لوگ بہت ہی زیادہ اقلیت میں ہیں جن کے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہمیشہ خطرہ رہیں گے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں مسخ شدہ بیانیے پر توجہ دے کر ہم ان متشدد ذہنوں کو اچھا بنانے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔
انتہائی ہمدردی کے اظہار سے تشدد کو روکنا
سنہ 2004 میں میری ملاقات جیک نامی ایک شخص سے ہوئی جس نے اپنی ماں کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ 20 سال کا تھا۔ اس وقت وہ پیرانوئے شیزوفرینیا میں مبتلا پایا گیا تھا اور اسے اس کے علاج کے لیے ہسپتال بھیجا گیا تھا۔
بعد میں اس نے ایک تھراپی گروپ میں شمولیت اختیار کی جسے میں بریڈمور ہسپتال میں چلا رہی تھی۔ ایک گھنٹہ کے طویل سیشن میں گروپ کے اراکین، جنھوں نے خاندان کے افراد کو ذہنی طور پر بیمار ہونے کی حالت میں قتل کر دیا تھا، سے کہا گیا تھا کہ وہ اس بارے میں بات کریں گے کہ وہ مستقبل میں تشدد کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ جیک کی عام طور پر اس میں دلچسپی نظر نہیں آتی تھی لیکن کوئي ایک سال بعد وہ اس وقت اچانک بول پڑا جب کسی دوسرے شخص نے ماضی کے عمل پر پچھتاوے کے بارے میں بات کی۔
وہ پکار اٹھا: 'کاش میں اپنی ماں سے اپنے کیے کے لیے معافی مانگ سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ میں ذہنی طور پر بیمار تھا، لیکن کاش میں یہ کہہ سکتا کہ مجھے کتنا افسوس ہوا اور وہ مجھے معاف کر سکتی۔ مجھے امید ہے کہ وہ سمجھ گئی ہوں گی کہ مجھے اس کا کتنا افسوس ہے۔'
اپنے آپ کو دوسرے مجرموں کے درمیان دیکھ کر گروپ کے کچھ اراکین نے سیکھا کہ ان کے اعمال کے نتیجے میں کسی کی جان بھی جا سکتی ہے۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ غصے، شرم اور خوف کی لہر کیسے انہیں غلط کردار ادا کرنے اور الفاظ کی غلط تشریح کی جانب لے جا سکتی ہے۔
اس دن کے بعد، جیک کا سیشن میں زیادہ دلچسپی لینا نظر آیا اور اس کی ذہنی صحت میں خاطر خواہ بہتری آئی، جس کی بدولت وہ مزید بحالی کے لیے کم محفوظ اسپتال میں منتقل ہو سکے۔
گروپ تھراپی میں وقت ضرور لگتا ہے، لیکن اس کے بعد بہت سے لوگوں کو کم محفوظ علاج کی سہولیات میں جانے کے لیے کافی محفوظ سمجھا گیا، جو کہ بہتری کی علامت ہے۔ کچھ افراد کو ہم صرف اس صورت میں منتقل کرتے ہیں جب ہم یہ طے کر لیتے ہیں کہ ان کی جانب سے دوبارہ جرم کے ارتکاب کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ذمہ داری لینا بھی سیکھا ہے۔
جیک نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد کی کہ قاتل صرف بے عقل عفریت نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اس ذہنیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ وہ بھی ایک عام آدمی تھا جس نے بہت سے دیگر لوگوں کی طرح ایک غیر معمولی واقعہ کیا تھا۔
بہر حال، کسی بھی وجہ کو تشدد کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ ہر پرتشدد جرم ان تمام لوگوں کے لیے ایک المیہ ہے جو اس میں ملوث ہیں۔ لیکن لوگوں کو شیطان قرار دینا ان کی مدد نہیں کرتا۔
یہ غصے اور خوف سے نمٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ جب ہم ہر اس شخص کو مردود قرار دیتے ہیں جس نے قتل یا زیادتی کی ہو، تو ہم تشدد کو کم کرنے اور روکنے کا ایک موقع ضائع کر دیتے ہیں۔
کسی ایسے آدمی، جس نے اپنے ساتھی کا سر قلم کیا ہو، یا ایسی عورت جس نے اپنے دوست کو چھرا گھونپ دیا ہو، کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بنیادی ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو سمجھنے اور اپنے بارے میں نئی بصیرت حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے، جہاں وہ جاتے ہیں وہاں جانا اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں، اسے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی چیز بالآخر تبدیلی کی طرف لے جاتی ہے۔