جیت کی جانب دوڑتے زمبابوے کے کھلاڑی ایک انچ کی قلیل فاصلے پر پویلین کی طرف مڑ گئے
دوڑ کی اختتامی حد تک پہنچ جانے سے ایک قدم پہلے گریں تو یہ بہت دل شکن محسوس ہوتا ہے۔ آخر میں وہ ایک انچ سے بھی کم دوری پر تھے جب جیت کی جانب دوڑتا زمبابوے کا کھلاڑی پویلین کی طرف مڑ گیا۔
کوئی امید نہیں رہی کہ ان کے قدم طیب طاہر کے ہاتھوں سے تیز ثابت ہوں گے۔
اس میچ میں بہت کچھ ایک ہی کھلاڑی کے گرد گھوم رہا تھا۔ سکندر رضا نئی زمبابوے کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے روح رواں ہیں، جنہوں نے حال ہی میں کئی حیرت انگیز ریکارڈز قائم کیے ہیں۔ یہاں بھی بہت کچھ ان کی انفرادی کارکردگی پر منحصر تھا۔
پاور پلے میں انہوں نے اپنے تینوں پیسرز کا بہترین استعمال کیا۔ چھوٹے چھوٹے سپیلز کے ذریعے کھیل کی رفتار کو اپنی چال پر رکھنا کامیاب رہے، جبکہ جارح مزاج پاکستانی بلے باز وہ آغاز حاصل نہ کرپائے جو میچ کو ابتدائی طور پر یکطرفہ کر دیتا۔
زمبابوے کی پچز اپنی نوعیت میں خاصی پیچیدہ ہوتی ہیں۔ باؤنڈریز طویل ہیں اور آب و ہوا کا گھاس پر ایسا اثر رہتا ہے کہ گیند جلد اپنی چمک کھو دیتی ہے۔ اوائل اننگز میں اگر پیسرز کو سہولت ملتی ہے تو بیچ اننگز میں سپنرز اپنی چالیں دکھاتے ہیں۔
یہاں مٹی کی خاصیت بھی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ گیند اسے چھوتے ہی اپنی رفتار کھو دیتی ہے۔ وہ ڈرائیوز، جو باقی دنیا کے اکثر وینیوز پر بآسانی باؤنڈری پار کر جاتی ہیں، یہاں جاتے جاتے اپنی ساری توانائی کھو دیتی ہیں۔
جو بیٹنگ سائیڈ پاور پلے کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے، میچ میں اس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ جو بولنگ سائیڈ نئی گیند کا اچھا استعمال کرتی ہے، وہ اپنی ٹیم کو ایک قدم آگے لے جاتی ہے۔ متوازن پاور پلے کے بعد، زمبابوے کے سپنرز نے بھی اپنی بہترین کارکردگی پیش کی۔
سکندر رضا واضح طور پر اس میچ کے سپر اسٹار تھے، کیوں کہ جو اعداد و شمار ان کے کھاتے میں درج ہوئے وہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ سے کافی دور، کسی ٹیسٹ میچ کے سپیل کے مساوی تھے۔
کپتان اور بولر کے طور پر یہ ان کی مہارت کی دلیل رہی کہ انہوں نے لیگ سائیڈ میں بڑے خلا چھوڑ دیے اور اپنی لائن آؤٹ کرنے کے لیے وہاں قائم کی، جب کہ آف سائیڈ کی بھرپور فیلڈنگ کے باعث سپن کے خلاف کھیلنا شدید دشوار ہو گیا۔
سلمان آغا ایسے بلے باز نہیں ہیں جو سپن کے خلاف نہیں کھیل سکتے۔ مگر سکندر رضا کی لائن اور ڈسپلن پاکستانی کپتان پر بھاری رہے اور اس مرحلے پر باؤنڈری عبور کرنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔
یہی بعد میں طیب طاہر اور عرفان خان کی مزاحمت تھی جو پاکستان کو میچ میں واپس لائی۔ ان کی طاقتور بلے بازی نے طویل باؤنڈریز عبور کیں اور زمبابوے کے پیسرز کو انتشار میں مبتلا کر دیا۔
دراصل، یہ ڈیتھ اوورز میں زمبابوے کی بولنگ نہیں بگڑی بلکہ ان دو پاکستانی بلے بازوں کی مہارت تھی جس نے انہیں دام میں جکڑا۔
زمبابوین بلے بازوں کے لیے یہ صورت حال خوش کن نہیں تھی کہ وہ اپنا حتمی ہدف ایک ایسے ہندسے سے سوچ رہے تھے جو کہ ان کے لیے کافی چیلنجنگ ثابت ہوا۔ اس ہدف کا تعاقب کرنے کے لئے ایک ایسی حکمت عملی درکار تھی جو مثبت سوچ اور احتیاط دونوں کو مدنظر رکھ سکے۔
مرومانی کا آغاز شاندار تھا۔ ابرار احمد اور جہانداد خان کے خلاف انہوں نے اپنی مضبوط تکنیک اور مثبت سوچ کا بہترین مظاہرہ کیا۔ میچ کی رفتار کو طے کرنے میں وہ ان دونوں سے دو قدم آگے رہے اور پاور پلے میں ایسا آغاز کیا جو کسی نوآموز کپتان کے لئے حیران کن تھا۔
اگرچہ پاور پلے کے بعد سکور بورڈ کی رفتار تھوڑی سست ہوگئی، مگر خطرہ ٹلا نہیں تھا۔ کریز پر موجود دونوں بلے باز مسلسل اپنی مہارت ثابت کرنے میں مصروف تھے اور پرانی گیند کے باوجود مطلوبہ رن ریٹ بھی ان کی دسترس میں تھا۔
اور پھر یہاں مرومانی سے وہ غلطی ہوئی جو عموماً ایسی ٹیموں کے بلے باز اچھے حریفوں کے خلاف میچ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کرتے ہیں۔ شاید ان کی ناتجربہ کاری آڑے آ رہی تھی کہ حریف بولنگ اٹیک پر دباؤ بڑھانے کی کوشش میں وہ ایسی راہوں پر قدم رکھ دیتے ہیں جہاں سے واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔
مرومانی کے لیے یہ ضروری تھا کہ جس جارحیت کا آغاز انہوں نے کیا تھا، اسے آخر تک اپنے ٹیم کے لیے برقرار رکھیں۔
سست ہوتی پچ پر پرانی گیند کے خلاف مضبوطی سے کھیلنے کے لیے جو وقت درکار تھا، وہ اس میچ میں موجود نہیں تھا اور ان کے بعد زمبابوین اننگز کو ختم ہونے میں دیر نہیں لگی۔