انڈیا کا دفاعی ادارہ جو خصوصی جوتے سے لے کر ہائپرسونک میزائل تک تیار کرتا ہے
انڈیا نے گذشتہ ہفتے اڑیسہ کے نزدیک ایک جزیرے سے ایک ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ آواز سے پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے پرواز کرنے والے میزائل کو نشانہ بنانا انتہائی مشکل ہے اور یہ ٹیکنالوجی ابھی دنیا کے چند ہی ممالک کے پاس موجود ہے۔
یہ میزائل جوہری بم سے حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربے کو میزائل ٹیکنالوجی میں انڈیا کی ایک بہت بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسے انڈیا کے دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او نے بنایا ہے۔
ڈی آر ڈی او انڈیا کی وزارتِ دفاع کے ماتحت جنگی سازوسامان بنانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کا مقصد انڈیا کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی سے مزین کرنا اور اس کا مشن کلیدی جنگی ہتھیاروں اور سازوسامان کے شعبے میں خود انحصاری حاصل کرنا ہے۔
یہ سنہ 1958 میں کئی تحقیقی اداروں کو ضم کرنے کے بعد وجود میں آیا تھا اور اب اس کا کام زمین، فضا، سمندر، خلا اور سائبر شعبے کے لیے جدید ترین سینسر، ریڈار، ہر قسم کے ہتھیار، میزائل، جوہری بم، توپیں، ٹینک، آبدوزیں، جنگی جہاز اور ان سے متعلقہ سازوسامان اور پرزوں کے ڈیزائن تیار کرنا اور انھیں تخلیق کرنا ہے۔
انڈیا میں 1974 اور 1998 میں پوکھران میں جوہری دھماکہ اسی ادارے کے سائنسدانوں کی نگرانی میں عمل میں آیا تھا۔ انڈیا کا جوہری بم اور ہائیڈروجن بم بھی ڈی آر ڈی او نے ہی بنایا ہے۔
ڈی آر ڈی او کی شاخیں ملک کے مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ پورے ملک میں اس کی تقریباً 52 لیباریٹریز ہیں جہاں دفاع کے الگ الگ شعبوں میں ہزاروں سائنسدان تحقیق و ترقی کے عمل میں مصروف ہیں۔
ڈی آر ڈی او نے اپنی پانچ لیبارٹریز نوجوان سائنسدانوں کے لیے مخصوص کر رکھی ہیں جہاں صرف 35 برس سے کم عمر کے انجینیئر ہی کام کرتے ہیں۔
ڈی آر ڈی او کے ادارے میں بیشتر گریجویٹ اور سائنسدان انجینیئرنگ اور سائنس کے ایسے تعلیمی اداروں سے آتے ہیں جنھیں ملک کے اولین اداروں میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ وہ نسبتاً کم معروف تعلیمی اداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
’ڈی آ ر ڈی او نے جو کامیابی حاصل کی وہ کئی ترقی یافتہ ملک بھی نہیں کر پائے‘
پلو باگلہ دفاعی امور کے صحافی ہیں۔ انھوں نے ڈی آر ڈی او کی بہت قریب سے کوریج کی ہے۔
Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’دی آر ڈی او کو انڈیا کی مسلح افواج کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ لوگ صرف یہی جانتے ہیں کہ اس نے جوہری بم بنایا ہے، ہائیڈروجن بم بنایا، وہ طرح طرح کے میزائل بنا رہا ہے، اسی نے پوکھران کا جوہری دھماکہ بھی کیا تھا۔‘
’لیکن یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ فوجیوں کے لیے مختلف موسموں کے اعتبار سے موزوں یونیفارم بناتا ہے اور آرام دہ جوتے بھی۔ کن حالات میں کس طرح کا کھانا کھانا ہے، اس کی تحقیق بھی یہیں کی جاتی ہے۔ یونیفارم اور جوتے بنانے سے لے کر ایٹم بم بنانے تک کا سارا کام ڈی آر ڈی او کرتا آیا ہے۔ چونکہ یہ ایک دفاعی تحقیق اور ترقی کا ادارہ ہے اس لیے اس کی سرگرمیوں کو انتہائی پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔‘
ڈی آر ڈی او نے ایٹم بم اور میزائل کے شعبے میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس نے جدید ترین کروز، بیلیسٹک، انٹر کانٹینینٹل، سپرسونک اور ہائپر سونک میزائل تیار کیے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ڈی آر ڈی او نے میزائل بنانے میں جو کامیابی حاصل کی ہے، وہ کئی ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی چیلنج بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'مثال کے طور پر، جو ہائپرسونک میزائل انڈیا نے حال ہی میں تیار کیا ہے، اس ٹیکنالوجی کے صرف پانچ یا چھ ممالک میں موجود ہے، جن میں چین اور امریکہ شامل ہیں، لیکن ان ممالک کے میزائلوں کی صلاحیت انڈیا کے ہائپرسونک سے کہیں کم ہے۔'
'انہوں نے تین برس پہلے ایک ہائپرسونک گلائیڈ وہیکل بھی بنایا تھا۔ یہ گلائیڈ وہیکل ایک راکٹ کے ذریعے اپنے ہدف تک پہنچایا جاتا ہے۔ آج بھی کئی ترقی یافتہ ممالک کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے۔'
راہل بیدی کا مزید کہنا ہے کہ 'ڈی آر ڈی او نے سب مرین بیلیسٹک میزائل بھی بنائے ہیں، جن کی تیاری بہت مشکل ہوتی ہے۔'
تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کا ریکارڈ میزائل بنانے میں شاندار ہے، لیکن اسالٹ رائفلز، فوج کے لیے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں وغیرہ بنانے میں ان کی صلاحیت کافی کمزور ہے۔'
ڈی آر ڈی او ابھی تک جنگی جہازوں میں استعمال ہونے والے طاقتور انجن بھی نہیں بنا سکا ہے۔ اس نے 'تیجس' نام کا ایک ہلکا جنگی طیارہ تیار کیا ہے، لیکن اس کا انجن امریکہ کی کمپنی جنرل الیکٹرک سے لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بہو کی لاش کے ٹکڑے کروانے کے لیے ساس نے ملزم کو کتنے پیسے دیے؟ تہلکہ خیز انکشاف سامنے آگیا
جب انڈیا نے دفاعی ٹیکنالوجی خود بنانے کا فیصلہ کیا
ڈی آر ڈی او کی میزائل ٹیکنالوجی کا آغاز 1980 کے عشرے میں ہوا، جب ڈاکٹر عبدالکلام کی قیادت میں میزائل ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا گیا۔
اس دور میں لندن، واشنگٹن اور ٹوکیو میں انڈیا کے دفاعی اتاشی اور ڈی آر ڈی او کے نمائندے موجود تھے۔ ان ممالک کا دفاعی ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول تھا۔
اٹل بہاری واجپئی کے دور میں 1998 کے جوہری دھماکے کے بعد، امریکہ اور مغربی ممالک نے انڈیا پر ٹیکنالوجی کی برآمد، خاص طور پر ایسے انجن، مشینیں اور کل پرزے برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی جو جنگی مشینوں اور ہتھیاروں میں استعمال ہو سکتے تھے۔
یہ پابندی کئی سال تک جاری رہی، اور یہی وہ وقت تھا جب انڈیا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ٹیکنالوجی کے لیے غیر ملکیوں پر انحصار نہیں کرے گا۔
سنہ 80 کے عشرے سے یہ ادارہ ترقی کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا کہ اب یہ ہائپر سونک میزائل بھی بنا رہا ہے اور سب مرین بیلسٹک میزائل بھی لانچ کر سکتا ہے۔
ڈی آر ڈی او نے گذشتہ 30 برس میں پرتھوی، اگنی، آکاش، ترشول، پناکا اور برہموس جیسے جدید میزائل بنائے ہیں جو انڈیا کی مسلح افواج کا حصہ ہیں۔
انڈیا کون سے میزائل برآمد کرتا ہے؟
ڈی آر ڈی او کچھ میزائل اب برآمد بھی کر رہا ہے۔ ایک تو آکاش میزائل ہے جس کی رینج 25 سے 40 کلومیٹر تک ہے اور دوسرا برہموس میزائل ہے جو انڈیا نے روس کے اشتراک سے بنایا ہے۔ اس کی رینج 280 کلومیٹر سے 400 کلومیٹر تک ہے۔ 280 کلومیٹر رینج کے میزائل انھوں نے فلپائن کو برآمد کیے ہیں جبکہ آکاش میزائل آرمینیا کو فروخت کیا گیا ہے۔
گذشتہ مالی سال میں انڈیا نے 21 ہزار کروڑ روپے مالیت کا جنگی ساز و سامان برآمد کیا تھا۔ انڈیا کی وزارت دفاع نے آئندہ پانچ برس میں اسے 50 ہزار کروڑ روپے تک پہنچانے کا ہدف رکھا ہے۔
راہل بیدی نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میزائل ٹیکنالوجی باہر سے حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ بہت ہی کلاسیفائیڈ اور خفیہ ٹیکنالوجی ہوتی ہے۔ جن ملکوں کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہوتی ہے وہ اسے دینے کے لیے راضی نہیں ہیں۔'
وہ کہتے ہیں کہ '1998 کے بعد انڈیا ایک جوہری ملک بن گیا ہے۔ ڈی آر ڈی او نے جو میزائل بنائے ہیں ان میں سے بہت سے میزائل جوہری بم گرانے کی صلاحیت والے ہیں۔ ابھی جس ہائپر سونک میزائل کا انڈیا نے تجربہ کیا ہے اس میں روایتی اور جوہری دونوں قسم کے بم نصب کیے جا سکتے ہیں۔'
تجزیہ کار پلو باگلہ کہتے ہیں کہ 'جہاں جہاں انڈیا کو دوسرے ملکوں نے ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا ان دفاعی سسٹمز میں ڈی آر ڈی او نے کمال کا کام کیا ہے۔ ان شعبوں میں اس ادارے نے بہت کارگر حل نکالے ہیں۔'
وہ مزید کہتے ہیں کہ ڈی آر ڈی او نے اسی سال ایک ہی میزائل میں کئی ایٹم بم لے جا کر الگ الگ ٹارگٹ کو نشانہ بنانے والے ایم آئی آر وی میزائل کا بھی کامیاب تجربہ کیا ہے۔
گذشتہ کچھ سال سے ڈی آر ڈی او نے نجی کمپنیوں سے بھی اشتراک کرنا شروع کیا ہے۔ آرٹیلیری یعنی توپ خانہ سسٹم، موٹرائزڈ وہیکل بنانے اور ہیلی کاپٹر یونٹ میں پرائیوٹ سیکٹر کا اشتراک شامل ہے۔