دسمبر آگئے ہو تم۔۔۔
دسمبر آ گئے ہو تم
بھٹکتی یاد کے اک زخم کہنہ کے سجانے کو
نئے نشتر لگانے کو
مجھے بیتے ہوئے لمحوں کی ٹھنڈی راکھ میں آتش دکھانے کو
درد اور یخ یادیں
تو پھر سن لو
کہ اب اس دل میں اتنی برف ہے جس میں ہر اک موسم ہر اک منظر کو یکسر ڈوب جانا ہے
جُڑی ہیں جو تمھارے نام سے یادیں
وہ سب باتیں
وہ سب اب دفن ہیں اک یخ لحد میں
مرے سینے کی حد میں
بے وفائی کا ذکر
سو میرے بے وفا ساتھی،
جو سب کچھ بھول بیٹھا ہے، سے کہہ دو
دسمبر آنے جانے سے مجھے اب کچھ نہیں ہوتا
میں اب پرنم نہیں ہوتا
دسمبر آ گئے ہو تم
نئی حقیقتیں
مگر تم کو بتا دوں میں
نہ مدہم دھڑکنیں ہوں گی نہ بھیگیں گی مِری آنکھیں
بھلے سے آؤ جاؤ تم یا جتنا وقت ٹھہرو تم
مجھے اب کچھ نہیں ہوتا
مجھے اب کچھ نہیں ہوگا
کلام :آفتاب عالم قریشی