سنبھل کی مسجد کے نیچے مندر کا دعویٰ: کیا یہ ہماری 500 سال پرانی جامع مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے؟

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے مراد آباد اور امروہہ قصبے کے درمیان واقع پرسکون شہر سنبھل آج کل بے چینی، خوف اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ اور اس کی وجہ شہر کی صدیوں پرانی شاہی جامع مسجد کو لے کر پیدا ہونے والا تنازع ہے۔

گذشتہ برسوں کے دوران ایودھیا میں منہدم کی جانے والی تاریخی بابری مسجد کی طرح مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر سے منسوب کی جانے والی اس مسجد کے اطراف اب پولیس فورس تعینات ہے۔ یہ ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے اور اسے سنبھل کی جامع مسجد بھی کہتے ہیں۔

اس کا آرکیٹیکچر اور ڈیزائن بابر سے پہلے کے لودھی حکمرانوں کے فن تعمیر سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ یہ تاریخی مسجد محمکہ آثار قدیمہ کی محفوظ تاریخی عمارات کے زمرے میں شامل ہے۔ یہاں ابتدا سے ہی نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔

سنہ 1976 میں یہاں کے امام کو ایک ہندو ایکٹیوسٹ نے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے مسجد کے مرکزی دروازے کے پاس پولیس چوکی بنائی گئی جہاں ہمیشہ اہلکار تعینات رہتے ہیں۔

فی الحال ممکنہ کشیدگی کے خوف سے مسجد کے اطراف میں رہنے والے بہت سے مسلمان اپنے گھروں سے کہیں اور منتقل ہو گئے ہیں۔

یاد رہے کہ 19 نومبر کو سنبھل میں کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج مہاراج نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر مقامی عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں یہ موقف اپنایا تھا کہ مسجد کی جگہ ایک ہندو مندر قائم تھا جسے سنہ 1526 میں توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔

جامع مسجد سے متعلق عدالتی درخواست

جامع مسجد سے متعلق عدالتی درخواست

انھوں نے اپنی درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ سنبھل کی شاہی مسجد کی جگہ ’ہری ہر‘ نامی مندر ہے لہذا انڈیا کا محکمہ آثار قدیمہ اس جگہ کا سروے کرے۔

یاد رہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد کے بعد یہ پہلی مسجد نہیں ہے جس پر ہندو مندر ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ پر بھی دعوے کیے جا چکے ہیں۔ اور پچھلے دنوں تو اجمیر کی درگاہ پر بھی مقدمہ کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد 19 نومبر کو سول کورٹ نے سنھبل مسجد کے متعلق درخواست کی سماعت کے فوراً بعد ایک ایڈوکیٹ کمشنر مقرر کیا اور چند گھنٹوں کے اندر مسجد کا سروے بھی کر لیا گیا۔

مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے سروے میں اتنی جلد بازی پر سوال اٹھایا تھا لیکن عدالت کے ذریعے مقرر کیے گئے ایڈوکیٹ سروے کمشنر رمیش سنگھ راگھو کا کہنا تھا کہ عدالت نے سروے کے لیے کوئی تاریخ اور وقت مقرر نہیں کیا تھا اور صرف رپورٹ جمع کرنے کے لیے 29 نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔

سروے کمشنر نے عدالت کے احاطے میں Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے سروے جلد کرنے کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک ہائی پروفائل کیس تھا۔ مقدمہ دائر ہونے کی خبر بہت تیزی سے پھیل گئی تھی اور لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ عدالت نے سروے کمشنر مقرر کر دیا ہے۔ کسی بھی ایسی پراپرٹی میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو وہاں سے ہٹائی جا سکتی ہیں۔ ہم نے مسجد انتظامیہ کو سروے کے متعلق آگاہ کیا اور ان کی موجودگی میں یہ سروے کیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیں: تقرری و تبادلوں کے منتظر سرکاری ملازمین کیلئے بڑی خوشخبری

سنبھل میں کشیدگی و ہلاکتیں: ’میرا بھائی گھر کا واحد کفیل تھا‘

سنبھل میں کشیدگی و ہلاکتیں: ’میرا بھائی گھر کا واحد کفیل تھا‘

سنبھل میں حالات اس وقت کشیدہ ہوئے جب سروے کمیٹی نے 24 نومبر بروز اتوار مسجد کا دوسرا سروے کیا۔ 24 نومبر کو صبح سات بجے جامع مسجد کے دوسرے سروے کے دوران وہاں مسلمانوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔

مسجد کی انتظامی کمیٹی کے عہدیدار ظفر علی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دوسرے سروے کے دوران جب مسجد کے حوض کا پانی خالی کیا گیا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ مسجد کی کھدائی ہو رہی ہے۔ مسجد انتظامیہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ مسجد میں کوئی کھدائی نہیں ہو رہی ہے لیکن مسلمانوں کی بھیڑ مشتعل ہو گئی اور پولیس پر پتھراؤ کرنا شروع کر دیا۔

پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اس تصادم میں کم از کم چار مسلمان نوجوان ہلاک ہوئے جبکہ کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ریاستی حکومت نے تشدد کے واقعے کی جانچ کے لیے ایک جوڈیشیل کمیٹی قائم کی ہے۔

اس تصادم میں ہلاک ہونے والوں میں کوٹ غربی محلے کا ایک نوجوان ایان بھی شامل ہے۔ ایان کی والدہ اس کی موت کے بعد سے بے حال ہیں اور بولنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں۔

ایان کی بہن نازیہ نے بتایا کہ ’ایان ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا اور گھر کا سارا خرچ وہی چلاتا تھا۔ اب کوئی سہارا نہیں رہا۔ ہماری پوری زندگی کی کمائی جا چکی ہے۔‘

دریں اثنا اس دوسرے سروے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مقامی رکن پارلیمان اور مسجد انتظامیہ کے صدر ضیا الرحمان کا کہنا ہے کہ اس کا ’کوئی قانونی جواز نہیں‘ تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر دوسرا سروے کرنا ہی تھا تو اس کے لیے عدالت سے حکم نامہ لے کر آنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ سروے عدالت کے حکم کے بغیر کیا گیا۔‘

تاہم ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین کا موقف تھا کہ ’پہلا سروے مکمل نہیں ہوا تھا۔ ہم نے اس کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سروے پورا نہیں ہوا ہے۔ اور اسے دوبارہ کرنا پڑے گا۔‘

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 4 نئے پولیو کیسز کی تصدیق، رواں سال تعداد 55 سے 65 تک بڑھنے کا خدشہ

مسجد میں ’غیر قانونی تعمیرات‘ کا دعویٰ

مسجد میں ’غیر قانونی تعمیرات‘ کا دعویٰ

دوسری جانب آرکیالوجی سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے حکام نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے سے متعلق مقامی عدالت میں اپنا جوابی بیان حلفی جمع کروایا ہے۔

اے ایس آئی کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ وشنو کمار شرما نے Uses in Urdu کے نامہ نگار انشول سنگھ کو اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جمع کروائے گئے بیان حلفی میں اے ایس آئی نے مسجد میں غیر قانونی تعمیر کا دعویٰ کیا اور باقاعدہ معائنہ کے دوران مسائل کا سامنا کرنے کی بات کہی ہے۔

اس معاملے میں اے ایس آئی کے ایک سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ محکمہ نے جو کچھ کہنا تھا وہ بیان حلفی میں لکھ دیا ہے۔

عدالت میں اے ایس آئی کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ وشنو کمار شرما نے کہا کہ 29 نومبر کو انہوں نے اے ایس آئی کی جانب سے عدالت میں جواب داخل کیا تھا۔

Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے وشنو شرما نے کہا کہ 'میں نے اپنے جواب میں ان تمام مسائل کا ذکر کیا ہے جو اے ایس آئی کو مسجد کا سروے کرتے وقت درپیش تھے۔ مقامی لوگ اور مسجد کمیٹی نے اے ایس آئی کو اندر جانے سے روکا اور اس کے ثبوت کے طور پر جواب میں مسجد کی پرانی اور نئی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔'

اے ایس آئی کے مطابق 'جامع مسجد کو 1920 میں محمکہ آثار قدیمہ کے تحت محفوظ یادگار قرار دیا گیا تھا، لیکن اس کے بعد اس میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔'

اے ایس آئی نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ مسجد میں کئی قسم کی 'غیر قانونی تعمیرات' ہوئی ہیں اور اس کی ذمہ داری مسجد مینجمنٹ کمیٹی پر ہے۔

اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ مسجد کی سیڑھیوں کے دونوں اطراف سٹیل کی ریلنگ لگائی گئی ہے، جس کے بارے میں 19 جون 2018 کو ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔

اے ایس آئی نے مزید کچھ غیر قانونی تعمیرات کا بھی دعویٰ کیا ہے، جن میں مسجد کے درمیان میں ایک تالاب پر پتھر لگا کر اس کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ اے ایس آئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکزی دروازے سے مسجد کے اندر آنے والے فرش کو سرخ سینڈ سٹون، ماربل اور گرے نائٹ سٹون سے ڈھانپ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پرانا فرش دب گیا ہے۔

اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ مسجد میں پلاسٹر آف پیرس کا استعمال کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مسجد کی اصل شکل متاثر ہو گئی ہے۔ مسجد کے عقب میں بنائے گئے کمروں کو مسجد کمیٹی دکانوں کے طور پر کرایہ پر دے رہی ہے۔

وشنو شرما کا کہنا ہے کہ اے ایس آئی نے انتظامی کمیٹی کی جانب سے مسجد کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اس کو روکا جانا چاہیے۔

اے ایس آئی نے عدالت کو بتایا کہ مسجد کی موجودہ حیثیت کی معلومات نہیں ہے کیونکہ مسجد کمیٹی کے ارکان نے اے ایس آئی اہلکاروں کو 'طویل عرصے سے' مسجد میں داخل ہونے سے روکا ہوا ہے۔

اے ایس آئی نے واضح کیا کہ حالیہ سروے (19 نومبر اور 24 نومبر) ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم پر کیے گئے تھے، اور اے ایس آئی کی ٹیم محفوظ یادگاروں کا باقاعدہ سروے یا معائنہ کرتی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ حالیہ طور پر مسجد کی دیکھ بھال شاہی جامع مسجد کمیٹی کے حوالے کی گئی ہے۔

شاہی جامع مسجد کمیٹی کے وکیل قاسم جمال کا کہنا ہے کہ 'ان کی آدھی سے زیادہ معلومات غلط ہیں، اگر اس میں ذرہ برابر بھی سچائی ہے تو یہ اے ایس آئی اور مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے درمیان معاملہ ہے۔ اس معاملے میں ان چیزوں کو لانے کا کیا مطلب ہے؟'

غیر قانونی تعمیرات کے سوال پر قاسم جمال کا کہنا ہے کہ 'جہاں تک ریلنگ کا تعلق ہے تو اس میں تعمیرات کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ ایک عارضی انتظام ہے جو لوگوں کی سہولت کے لیے ہے، اے ایس آئی کو کچھ غیر قانونی تعمیرات نظر آئیں تو انھیں شکایت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم مقدمہ لڑیں گے۔'

سنبھل میں خوف

سنبھل میں خوف

سروے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کے واقعے کے بعد شہر میں خوف کا ماحول ہے۔ پولیس نے احتجاج کرنے والے سینکڑوں نامعلوم مسلمان نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور ڈرون سے لی گئی تصویروں کی مدد سے انھیں تلاش کر رہی ہے۔

شہر میں سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مسجد کے اطراف میں بھاری سکیورٹی تعینات ہے۔ لوگ سہمے ہوئے ہیں اور بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

ایک مقامی وکیل ڈاکٹر امیت اوٹھوال کہتے ہیں کہ 'مسجد کا سروے ایک انتہائی حساس معاملہ تھا۔ ضلعی انتظامیہ کو بہت محتاط طریقے سے قدم اٹھانا چاہیے تھا۔'

ان کا کہنا ہے کہ 'یہ بہت افسوس ناک واقعہ ہے۔ سروے سے پہلے انتظامیہ کو دونوں فریقوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ انتظامیہ اس میں ناکام ثابت ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ ایڈوکیٹ کمشنر کا سروے کے لیے صبح چھ یا سات بجے مسجد پہنچنا سمجھ سے باہر ہے۔'

مقامی رکن اسمبلی اقبال محمود تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال سے پریشان ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں سب کو اپنے اپنے طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن 'اب جو نفرت کی سیاست ہو رہی ہے یہ ملک کے لیے اچھی نہیں ہے۔'

'بابری مسجد کا فیصلہ آیا پورے ملک نے دل پر پتھر رکھ کر اسے قبول کر لیا۔ کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن اب بنارس، متھرا اور سنبھل شروع ہو گیا۔ اب ہمیں یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ ہماری پانچ سو برس پرانی جامع مسجد پر قبضہ تو نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ڈر تو ہے۔'

سنبھل کا یہ نیا تنازع اب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پہنج چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے سنبھل کی مسجد کے سروے کی رپورٹ کی بنیاد پر مزید کوئی قدم اٹھانے پر فی الحال روک لگا دی ہے۔ لیکن سنبھل میں خوف اور بے یقینی کی فضا قائم ہے۔

کچھ مسلم تنظیموں نے اب سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے کہ وہ 1991 کے اس قانون کو نافذ کرے جس کے تحت سبھی عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔

بابری مسجد کے انہدام سے ایک برس قبل ملک کی پارلیمان نے مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک قانون منظور کیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ موجود تھی، اس کی شکل میں اب کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...