ایکس اکاؤنٹ یا پارٹی قیادت: عمران خان کی حقیقی نمائندگی کون کر رہا ہے؟
سابق وزیر اعظم عمران خان کا بیان چاہے سیاسی ہو، انتخابی یا احتجاجی، یہ بار بار حریف جماعتوں کے لیے دردسر بنتا ہے۔ مگر اب چونکہ وہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں قید ہیں، اسے عوام تک پہنچانے میں تحریک انصاف کو اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
2022 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے عمران خان کی اسیری کے دوران ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات اور پارٹی قیادت کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاید کہیں رابطے، فہم، مشاورت یا نظریے میں واضح تضاد ہے۔
عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری ہونے والے بیانات میں سخت الفاظ اور موقف اپنایا جاتا ہے جبکہ پارٹی قیادت کے لہجے میں کچھ نرمی دکھائی دیتی ہے۔
جب پی ٹی آئی کا نومبر کے اواخر کے دوران اسلام آباد میں احتجاج ہوا تو اس دوران بھی جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور قائدین کے موقف میں فرق نظر آیا، حتیٰ کہ دھرنے کے مقام، کارکنان کی اموات کی تعداد اور دھرنا اچانک ختم ہونے پر قیادت کی واپسی پر پارٹی میں اختلاف کی اطلاعات سرگرم رہیں۔
ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی اصل ترجمانی کون کرتا ہے اور آیا بیرسٹر گوہر کے نرم موقف کو درست مانا جائے یا ایکس اکاؤنٹ پر عمران خان کے جارحانہ بیانات کو؟
عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کیا کہا گیا؟
پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے دو دسمبر کی شام جاری بیان میں انھوں نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ کے دوران کارکنوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے واقعات سے متعلق دکھ و افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ’اسلام آباد قتل عام‘ کا نام دیا اور اسے ’جلیانوالہ باغ‘ کے واقعے سے تشبیہ دیتے ہوئے حکمرانوں کو ’موجودہ دور کے جنرلدائر‘ قرار دیا۔
ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’ہلاک ہونے والے کارکنوں کا مقدمہ اقوام متحدہ سمیت تمام فورم پر لے کر جائیں گے۔‘
ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'نہ میں پیچھے ہٹوں گا نہ پاکستانی قوم، اگر ہم نے آج ہار مان لی تو پاکستانی قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔'
ان کے بیان میں مزید کہا گیا کہ 'پرامن احتجاج ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے اور وہ پاکستان میں کہیں بھی کیا جا سکتا ہے- نو مئی کو بھی ہمارے 25 کارکنان کو شہید کیا گیا اور اس بار بھی پرامن مظاہرین کو گولیاں مار کر خون کی ہولی کھیلی گئی اور درجنوں شہریوں کو شہید کیا گیا جو کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ میں بھی نہیں کیا گیا۔'
ان کے جاری بیان میں 'سپریم کورٹ سے غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن بنا کر اس قتل عام کی تحقیقات کروانے اور قتل عام کا حکم دینے والے اور اس میں ملوث عناصر کو سخت ترین سزائیں دینے' کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
جبکہ اگر دو دسمبر کو ہی پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے کی جانے والی بات چیت کا جائزہ لیں تو انھوں نے قدرے نرم الفاظ کا استعمال کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں متوازی نظام قائم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، وزیرداخلہ
بیرسٹر گوہر کی نرم لہجے میں عمران خان کی ترجمانی
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان نے ’24 نومبر کو اُن کی احتجاج کی کال پر نکلنے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سب ایک اور متحد رہیں آپ کے درمیان لوگ اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے مگر آپ سب کو متحد رہنا ہے۔‘
بیرسٹر گوہر کا مزید کہنا تھا کہ ’بانی پی ٹی آئی کا اپنے لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ گولی کیوں چلائی گئی اس بارے میں قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس بارے میں احتجاج کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا اور جو بھی بات ہو وہ اسمبلی میں ہو۔‘
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کا یہی پیغام ہے کہ چاہے ہم سنگجانی تھے یا ڈی چوک تھے احتجاج وہاں ہوتا ہے کہ جہاں اس کا اثر ہوتا ہے۔ جہاں بھی احتجاج ہونا تھا گولی نہیں چلنی چاہیے تھی خاص کر تب کے جب ابھی تک سارے لوگ اُس مقام تک پہنچے بھی نہیں تھے۔‘
ڈی چوک میں حالیہ احتجاج میں ہلاکتوں سے متعلق ہونے والے ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک جمہوری پارٹی ہیں اور ہم کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیتے۔ ڈی چوک احتجاج میں ہلاکتوں سے متعلق ہم نے وہی بیان دیا کہ جن کی تفصیل ہمارے پاس موجود تھی، 12 ہلاکتیں ہوئیں ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کہا جا رہا ہے کہ سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں اس سے متعلق ہم نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور تب تک ہمارا بیان یہی رہے گا کہ جب تک ہمارے پاس اس سے متعلق کوئی واضح حقائق سامنے نہیں آتے۔‘
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ایئرپورٹ پر مسافر سے تقریباً ڈیڑھ کلو آئس برآمد، کہاں چھپا رکھی تھی؟ جانئے
عمران خان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ کون چلاتا ہے اور اسے عمران خان کا یہ موقف کیسے ملتا ہے؟
پی ٹی آئی کے رہنما سید ذوالفقار (زلفی) علی بخاری نے Uses in Urdu سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی عمران خان کے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات کو ان کی سوشل میڈیا چلاتی ہے۔
انھوں نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا ٹیم کو عمران خان کے بیانات ان کی قانونی ٹیم یعنی وکلا سے ذریعے موصول ہوتے ہیں۔
’عمران خان گذشتہ 18 ماہ سے جیل میں قید ہیں اور ان سے ملاقات کرنے والی قانونی ٹیم اور وکلا ہی ان کے پیغامات سوشل میڈیا ٹیم کو دیتے ہیں۔‘
ایک سوال پر کہ کیا یہ پیغامات تحریری ہوتے ہیں یا زبانی، زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چونکہ جیل میں لکھنے کی اجازت نہیں لہذا یہ تمام پیغامات زبانی ہوتے ہیں جو عمران خان سے ملاقات کرنے والے وکلا سوشل ٹیم کو ڈکٹیٹ کرواتے ہیں۔
جب ان سے عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والی پارٹی بیانات یا موقف اور سیاسی قیادت کی جانب سے دیے گئے بیانات میں فرق سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پارٹی کے بیانیے، موقف یا بیانات میں کوئی تضاد یا فرق ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'عمران خان گزشتہ 18 مہینوں سے جیل میں ہیں اور ان کے بیانات کو زبانی طور پر لکھوانے میں کچھ فرق آ سکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پارٹی کے اصولی موقف میں کوئی فرق ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ زبانی بتائے گئے بیانات کو لکھنے والے کے الفاظ کے چناؤ کے تناظر میں بھی دیکھا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ایسے معاملات میں الفاظ کے چناؤ میں معمولی فرق آنا بہت فطری ہے۔
انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ 'میں بڑی ذمہ داری سے یہ کہہ رہا ہوں کہ کسی کا بیانیہ یا موقف الگ نہیں ہے خاص طور پر عمران خان کے موقف میں کوئی فرق یا تضاد نہیں ہے۔'
انھوں نے حالیہ اسلام آباد مارچ میں کارکنوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے 12 کارکنوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار ہیں جن کی بین الاقوامی میڈیا میں بھی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو مصدقہ ہیں اور ہمارے پاس ان کے تمام کوائف موجود ہیں۔'
'لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ اصل میں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، مگر ہم ان کی تعداد بتانے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ ابھی تک ہمارے پاس ان کی تصدیق اور کوائف آنا باقی ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد پولیس کے کتنے پیسے خرچ ہوئے؟
سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا پارٹی قیادت، عمران خان کا اصل ترجمان کس کو سمجھا جائے؟
عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیانات میں الفاظ کے سخت چناؤ اور پارٹی قیادت کے بیانات کے درمیان پارٹی موقف کی ترجمانی کسے سمجھا جائے کے سوال پر زلفی بخاری نے کہا کہ 'یہ فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔'
'عوام جس بات کو معقول سمجھتے ہیں اور اسے مصدقہ مانتے ہیں، اس پر مل کر فیصلہ کریں گے۔ یہ فیصلہ عوام کا ہے، وہ جو بہتر سمجھیں گے، اسے دیکھیں۔'
انھوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ چاہے پارٹی قیادت ہو یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان، دونوں میں ہی پارٹی موقف کی ترجمانی موجود ہے اور دونوں میں 'اصولی موقف ایک ہی ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ جو عمران خان کہتے ہیں 'وہی پارٹی اور سوشل میڈیا بیانات میں کہا جاتا ہے۔ صرف الفاظ کے چناؤ میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے۔'
مگر کیا یہ تضاد تحریک انصاف کو نقصان پہنچاتا ہے؟
اس بارے میں سینئر صحافی و اینکر پرسن طلعت حسین نے Uses in Urdu کو بتایا کہ پارٹی قیادت اور عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات میں بالکل تضاد موجود ہے اور یہ صرف الفاظ کا انتخاب نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی پارٹی پالیسی کا حصہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے موقف میں اس طرح کے تضاد 'مبالغہ آرائی کی پالیسی' کا نتیجہ ہے جو ایک محدود حکمت عملی کے تحت سامنے آتی ہے۔
وہ اس بات کی مثال دیتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد پر مختلف آراء ابھری ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب پارٹی محدود طریقے سے اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تو بیریسٹر گوہر کو آگے لایا جاتا ہے، اور جب عوام تک 'جھوٹ اور مبالغہ پر مبنی پیغام' پہنچانا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'قتل عام'، 'جلیانوالا باغ' اور 'جنرل ڈائر' جیسے الفاظ کے استعمال اور 12 ہلاکتوں پر بات کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔
اس پالیسی کے ذریعے پارٹی کو فائدہ یا نقصان پر تبصرہ کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی ہمیشہ اپنے حامیوں کو 'مبالغے کا پیغام' دیتی آئی ہے۔ 'پارٹی جانتی ہے کہ اگر محاذ آرائی کی سیاست کرنی ہے تو اپنے حامیوں کو مشتعل رکھنا ہوگا۔'
تاہم ان کا خیال ہے کہ اس تضاد سے بھی فائدہ پی ٹی آئی کو ہی ہو رہا ہے۔