شرمساری پر مبنی یہ بیہودہ اور نقصان دہ سلسلے دار چکر ان تمام شناختوں اور علامتوں پر لاگو ہوتا ہے جن کے باعث آپ اپنی شخصیت کو بے وقعت اور حقیر سمجھتے ہیں
مصنف کی معلومات
مصنف: ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ: ریاض محمود انجم
یہ بھی پڑھیں: بیٹی کے قتل کے الزام میں 21 سال قید کاٹے والے شخص کی سزائے موت ڈیڑھ گھنٹہ قبل مؤخر کر دی گئی
قسط: 67
یہ بھی پڑھیں: ٹر مپ کو غیر قانونی احکامات سے کیسے روکیں، پینٹاگون میں غور وفکر شروع
شرم کی کیفیت
1: "میں بہت شرمیلا ہوں۔"
2: "مجھے وہ لوگ بہت پسند ہیں۔"
3: "میرا خیال ہے کہ میں ان کے پاس جاؤں۔"
4: "نہیں، میں ان کے پاس نہیں جا سکتا۔"
5: "میں ان کے پاس کیوں نہیں جا سکتا۔"
6: "اس لیے کہ میں بہت شرمیلا ہوں۔"
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی چین سے 3.4 ارب ڈالر کے ایک اور قرضہ کی ری شیڈولنگ درخواست
عادات کی تشکیل
ہمیشہ سے ہی آپ کا یہی رویہ اور طرزعمل ہوتا ہے اور چونکہ آپ مسلسل استعمال کے ذریعے اپنی یہ عادت پختہ کر لیتے ہیں، اس لیے یہ آپ کی فطرت ثانیہ بن گئی ہوتی ہے۔ اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے درکار خطرہ مول لینے پر مبنی رویہ اور طرزعمل آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: لیسکو کا بجلی چوروں کے خلاف آپریشن ،24گھنٹوں کے دوران34ملزمان گرفتار ، کتنا ڈٹیکشن بل چارج کیا گیا ؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں
شرم کی وجوہات
اس نوجوان میں موجود شرم کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا ماخذ ممکنہ طور پر اس کا بچپن ہے۔ اپنے اس خوف کی وہ جو کچھ بھی وجہ بتاتا ہے، بہرحال اس نے یہ فیصلہ کر لیا ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی طور پر لوگوں سے میل جول نہ رکھنے اور اپنے اس روئیے اور طرزعمل کو اپنی شناخت و علامت کے پردے میں چھپا دے۔ ناکامی کا خوف اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہ کوشش کرنے سے بھی گھبراتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سٹاک ایکسچینج میں نیا ریکارڈ قائم ،100انڈیکس 1لاکھ 10ہزار پوائنٹس عبور کرگیا
رویہ میں تبدیلی کی کوشش
جب بھی وہ اپنا یہ رویہ تبدیل کرنے کا خیال ذہن میں لاتا ہے تو اس کی شناخت و علامت اس کا گھیراؤ کر لیتی ہے اور پھر وہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے: "میں بہت شرمیلا تھا اور ابھی تک شرمیلا ہوں اور میرا رویہ اور طرزعمل شرمیلے انداز پر مبنی ہوتا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ ٹرین سٹیشن دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایاز مسیح، جو کبھی بابر اعظم جیسا کرکٹر بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔
شخصیت کی خودکم بینی
شرمساری پر مبنی یہ بیہودہ اور نقصان دہ سلسلہ ان تمام شناختوں اور علامتوں پر لاگو ہوتا ہے جن کے باعث آپ اپنی شخصیت کو بے وقعت اور حقیر سمجھتے ہیں۔ ذیل میں ایک ایسے طالب علم کا احوال دیکھیے جو ریاضی میں کمزور ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد پولیس اہلکار کی ہلاکت: وزیراعظم کا افسوس اور ملوث افراد کی سزا کی ہدایت
طالب علم کی مثال
1: میں ریاضی میں کمزور ہوں (میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں)
2: آج میں نے ریاضی کے سوالات حل کرنے ہیں۔
3: میرا خیال ہے کہ میں یہ سوالات حل کر لوں گا۔
4: (10 منٹ کے لیے) میں یہ سوالات حل نہیں کر سکتا۔
5: میں یہ سوالات کیوں نہیں حل کر سکتا؟
6: اس لیے کہ میں ریاضی میں کمزور ہوں۔
یہ طالب علم ہمیشہ سے ہی اس عادت میں مبتلا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے ریاضی کی جماعت سے کیوں غیرحاضری کی تو وہ کہنے لگا: "میں ہمیشہ سے ہی ریاضی میں کمزور ہوں۔" اسی طرح کی مزید خامیوں اور کمزوریوں کے باعث آپ مستقل طور پر اپنے لیے خودتحقیری اور بے وقعتی پر مبنی رویہ اور طرزعمل اختیار کر لیتے ہیں۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔