قونصل خانے پر حملہ: دلی کی دیپلوماسی کی شرمندگی اور ڈھاکہ کا غصہ، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان نیا تنازع کیا ہے؟
انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی بیان بازی کی جنگ ہندو اقلیتوں کے خلاف مبینہ بدسلوکی پر ہونے والے مظاہروں اور جوابی مظاہروں کے بعد بے قابو ہوتی نظر آ رہی ہے۔
اگست میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے درمیان، جو قریبی اتحادی سمجھے جاتے تھے، سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں۔ یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد خود بھی انڈیا میں ہی موجود ہیں۔
تاہم حالیہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ ہفتے ایک ہندو راہب کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد انڈیا میں ہندو تنظیموں اور کارکنوں نے مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں میں انڈیا کی برسراقتدار جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان بھی شامل تھے۔
یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب درجنوں مظاہرین اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے سفارت خانے میں داخل ہوئے اور نقصان پہنچایا۔ یہ واقعہ انڈیا کے لیے ’سفارتی شرمندگی‘ کا باعث بنا۔
چند ہی گھنٹوں کے بعد سرحد پار بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں سینکڑوں طلبہ اور سماجی کارکن اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ انڈیا کی حکومت نے بنگلہ دیشی سفارت خانے پر حملے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اسے ’انتہائی افسوسناک‘ قرار دیا ہے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’سفارتی اور کونسلر عمارات کو کسی بھی صورت نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔‘ اس بیان میں ملک میں بنگلہ دیش کی سفارتی تنصیبات کی سکیورٹی بڑھانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ دوسری جانب انڈین پولیس نے سات افراد کو حراست میں لیا ہے۔
تاہم ڈھاکہ، یعنی بنگلہ دیش کی حکومت، اب تک ناراض اور غصے میں ہے۔ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو ’گھناؤنا فعل‘ قرار دیتے ہوئے دلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک بھرپور تفتیش کی جائے اور بنگلہ دیش کے سفارتی مشنوں کے خلاف مستقبل میں پرتشدد واقعات کو روکا جائے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے امور خارجہ کے مشیر توحید حسین نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت افسوسناک اور ناقابل قبول صورتحال ہے۔ ہندو انتہا پسند عمارت میں گھسے اور پرچم کی توہین کی گئی۔ ہمارے افسران اور دیگر عملہ نہایت خوفزدہ ہیں۔‘
بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ہونے والے مظاہرے، جن میں سے چند اس کی سرحد کے قریب ہوئے ہیں، غلط معلومات اور انڈین میڈیا میں اس مسئلے پر گرما گرم کوریج کی وجہ سے بڑھے ہیں۔
توحید حسین کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے انڈین میڈیا اس معاملے کو لے کر جذباتی ہو رہا ہے۔ وہ بنگلہ دیش کی بری تصویر کشی کر رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور اس سے انڈیا یا بنگلہ دیش کو کیا فائدہ ہو گا، مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی۔‘
انڈیا میں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ فطری بات ہے کہ بنگلہ دیش میں کسی بھی پیش رفت کے اثرات ہمسایہ ملک میں نظر آئیں۔ پنک رانجن چکروتی ڈھاکہ میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر رہ چکے ہیں۔
انھوں نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا میں کافی گہرے جذبات ہیں، بنگلہ دیش کو چاہیے کہ بدامنی کا مسئلہ حل کرے، خصوصی طور پر اقلیتوں پر حملوں کے معاملے کو۔‘
یاد رہے کہ بھارت کے لیے بنگلہ دیش محض ایک ہمسایہ ملک نہیں بلکہ ایک سٹریٹیجک اتحادی اور سرحدی سیکیورٹی کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں میں۔
بنگلہ دیش کی آبادی میں ہندوؤں کی تعداد 10 فیصد سے کم ہے۔ اس کے باوجود، اس کمیونٹی کے رہنما امتیازی سلوک اور انتہا پسندوں کی جانب سے نفرت انگیز حملوں کی شکایت کرتے رہے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے کئی حامیوں نے نشانہ بننے کی شکایت کی، جن میں اقلیتی کمیونٹی کے افراد بھی شامل تھے۔
تاہم ہندو رہنما چنموئی کرشنا داس کی گرفتاری کے بعد صورت حال کشیدہ ہو گئی، جنہوں نے اکتوبر میں چٹاگانگ میں مظاہرے کے بعد حراست میں لیے جانے کے دوران بنگلہ دیش کے پرچم سے اوپر سیفرون جھنڈا لہرایا، جسے ہندو مذہب سے جوڑا جاتا ہے۔
پچھلے ہفتے عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست رد کر دی، جس کے بعد ایک مسلمان وکیل کی موت کے باعث فساد پھوٹ پڑا۔ درجنوں افراد کو اب تک اس ہلاکت کے الزامات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
منگل کے دن جب کرشنا داس کی نمائندگی کے لیے عدالت میں کوئی وکیل نہیں پہنچا تو ان کی ضمانت کی سماعت دو جنوری کے لیے رکھ دی گئی۔ کرشنا داس اس سے پہلے مذہبی تنظیم اسکون کے ساتھ منسلک تھے، مگر ایک سینئر رکن نے بتایا کہ انہیں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نکال دیا گیا تھا۔
اس اہلکار نے کہا کہ کرشنا داس کے بارے میں چند طلبہ نے شکایت کی تھی کہ ان سے بدتمیزی کی گئی ہے۔ کرشنا داس خود حراست میں ہیں اور ان کا موقف نہیں لیا جا سکتا۔
تاہم ان کے ایک حامی نے کہا کہ ان کے خلاف الزامات غلط ہیں اور اصل وجہ ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں تنظیم کے سربراہان کے درمیان اندرونی چپقلش ہے۔ سواترنتا گورنگا داس نے جھنڈے والے الزام کی بھی تردید کی۔
یہ معاملہ بنگلہ دیش میں کافی تناؤ کا باعث بنا ہے۔ گورنگا داس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں اقلیتیں خوف کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔
'وہ نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔ حکومت سیکیورٹی فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن زیادہ لوگوں کو کنٹرول میں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔'
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صورت حال سے واقف ہے اور تمام کمیونٹیز کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتی ہے۔
تاہم اس خطے میں مذہبی تناؤ نئی بات نہیں، اور سرحد کے دونوں اطراف میں سماجی اور مذہبی کارکن اس وقت سوچ رہے ہیں کہ اگر مظاہرے اور نفرت انگیز تقاریر کا سلسلہ جاری رہا تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد کی انڈیا میں موجودگی پہلے ہی دوطرفہ تعلقات میں کھٹائی کی وجہ ہے اور حالیہ مظاہروں نے پہلے سے ہی کشیدہ صورت حال میں اور بگاڑ پیدا کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور انھیں بیان بازی میں کمی لانا ہو گی۔
ایسے میں بنگلہ دیش سے کاروبار، سیاحت یا علاج کے لیے انڈیا جانے والے عام شہری بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی ہفتے کے دوران جب محمد عنایت اللہ اپنے دوستوں سے ملنے انڈیا جا رہے تھے تو مغربی بنگال کی سرحد پر انھوں نے ہندو کارکنوں کا احتجاج دیکھا۔
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ‘سرحد پار کرتے ہوئے جب لوگ آپ کے ملک کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہوں تو اچھا نہیں لگتا۔’
امیتابھا بھاٹسالی کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ