دنیا میں خواتین کے لیے بہترین ملک: ‘یہاں فیمنزم کی جنت نہیں’
دنیا میں صنفی مساوات کی بات آئے تو آئس لینڈ مستقل طور پر درجہ بندی میں دیگر ممالک سے آگے ہے اور 15 برسوں سے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں سرِفہرست ہے۔
یہاں نئے والدین کو باآسانی چھٹی ملتی ہے اور کام کرنے کی عمر والی تقریباً 90 فیصد خواتین کے پاس ملازمتیں ہیں جبکہ ملک کی تقریباً نصف ارکانِ پارلیمان بھی خواتین ہیں۔
Uses in Urdu نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر یہ ملک ایسا کیا کر رہا ہے اور کیا اس ملک میں خواتین کے لیے چیزیں اتنی ہی آسان ہیں جتنا ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں؟
یہ ریکجاوک میں سردیوں کی ایک یخ بستہ صبح کا منظر ہے جہاں درجنوں لڑکیاں زبردست عزم کے ساتھ لکڑیاں اٹھا رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ پورے زور سے آواز لگاتی ہیں ’میں بہت مضبوط ہوں۔‘
وہ آئس لینڈ کے 17 نرسری سکولوں میں سے ایک میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں جہاں طلبہ کو ایسے طریقہ کار (جالی) پر عمل کرتے ہوئے تعلیم دی جاتی ہے جو صنفی لحاظ سے روایتی دقیانوسی تصورات کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔
اس طریقہ کار کی بانی مارگریٹ پالا اولافسڈوٹیر کہتی ہیں ’دو سال کے بچوں نے اپنے ذہن میں یہ تصور بنا لیا ہے کہ لڑکا یا لڑکی ہونے کا کیا مطلب ہے اور یہ چیز ان کی باقی زندگی کو محدود کر دیتی ہے۔‘
جالی سکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو زیادہ تر وقت الگ الگ رکھا جاتا ہے اور انھیں ایسے کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جو روایتی طور پر مخالف جنس سے منسوب ہوں۔
لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ ڈریں نہیں اور بہادر بنیں اور دوسرے کی رائے کو خود پر اثرانداز نہ ہونے دیں۔
لکڑیاں اٹھانے کے علاوہ وہ کبھی کبھار برف میں ننگے پاؤں بھی چلتی ہیں۔
لڑکے ایک دوسرے کے بالوں میں کنگھی کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مالش کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے ہیں مثلاً ’آج تم بہت اچھے لگ رہے ہو۔‘
ولافسڈوٹیر کہتی ہیں ’زیادہ تر لڑکے الگ رہنا اور خود مختاری پسند کرتے ہیں۔ ہم انھیں نرم دلی، دوسروں کے ساتھ مہربانی اور دیکھ بھال کرنا، ایک دوسرے کی مدد اور دوسروں کی بات سننے کی تربیت دیتے ہیں۔‘
ایک ایسا ملک جو صنفی مساوات میں پہلے ہی سب سے آگے ہے وہاں تعلیم و تربیت کا یہ طریقہ مقبول ہو رہا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صحت، تعلیم اور معیشت جیسے شعبوں میں جینڈر گیپ کو 90 فیصد سے زیادہ ختم کیا جا چکا ہے۔
2018 میں یہ دنیا کا وہ پہلا ملک بنا جہاں کمپنیوں کو یہ ثابت کرنا پڑا کہ وہ مردوں اور عورتوں کو ان کے کام کی برابر تنخواہ دیتے ہیں... دوسری صورت میں انہیں بھاری جرمانوں کا خطرہ تھا۔
یورپی کمیشن کے مطابق یہاں کام کرنے کی عمر کی تقریباً 90 فیصد خواتین کے پاس ملازمتیں ہیں اور یہ شرح یورپی یونین کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جہاں 2021 میں 68 فیصد سے بھی کم خواتین کے پاس ملازمتیں تھیں۔
بہت سارے لوگ اس خوشگوار تبدیلی کا ذمہ دار آئس لینڈ کی چائلڈ کیئر پالیسی کو سمجھتے ہیں۔ یہاں بچے کی پیدائش کے بعد ہر والدین کو 80 فیصد تنخواہ کے ساتھ چھ مہینے (تین مہینے ماں کو تین مہینے باپ کو) کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔
فارمنگ کمپنی میں ملازمت کرنے والی کیٹرن کہتی ہیں کہ ’مجھ پر کبھی یہ دباؤ نہیں رہا کہ میں ملازمت کر رہی ہوں اس لیے مجھے بچے نہیں جنم دینے چاہییں۔'
ان کے پانچ بچے ہیں اور ان کی عمریں 10 سال سے کم ہیں۔
’یہ کوئی فیمنسٹوں کی جنت نہیں‘
لیکن آئس لینڈ میں خواتین کا ایک گروہ اپنی حکومت سے سخت ناراض ہے اور انہوں نے یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت میں ایک مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے۔
مدعی علیہان کی شکایات میں ایک چیز مشترک ہے: یہ تمام خواتین پولیس کا پاس ریپ یا جنسی تشدد کی شکایات لے کر گئیں تھیں لیکن ان کے مقدمات عدالت پہنچنے سے پہلے ہی خارج کر دیے گئے تھے۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کا نظامِ عدل ایک منظم طریقے سے خواتین کو مایوس کر رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق آئس لینڈ میں خواتین کی ایک چوتھائی تعداد یا ریپ کا شکار ہوئی ہے یا پھر ان کے ساتھ ریپ کی کوشش کی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق آئس لینڈ میں 40 فیصد خواتین جسمانی یا جنسی تشدد کا بھی سامنا کر چکی ہیں۔
لیکن خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں مردوں کے خلاف کم ہی مقدمات درج کیے جاتے ہیں کیونکہ پولیس مردوں کے خلاف دائر مقدمات اور ریپ کے الزامات کی درست تحقیقات نہیں کرتی، اس کی وجہ حکومتی فنڈز کی کمی ہے۔
خواتین کی مدد کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے سے منسلک کارکن گدرون جونسدوتر کہتی ہیں کہ 'بہت سے مقدمات میں اہم گواہوں سے سوالات نہیں کیے جاتے، ڈاکٹروں اور ذہنی صحت کے ماہرین کی رپورٹس کو نظرانداز کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ریپ کے مجرمان کے اعترافی بیانات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔'
'خواتین کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور یہ بات بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ ہم اب یہ مزید برداشت نہیں کریں گے۔'
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق خواتین پر جنسی تشدد کے 80 فیصد مقدمات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کو مدد دینے والے ایک اور ادارے آفگر سے منسلک ہلدا ہرند کہتی ہیں کہ 'ہمارے ملک کو فیمنسٹوں کی جنت کہا جاتا ہے، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ صرف سیاسی شعبدہ بازی ہے۔'
حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے رجوع کرنے والی خاتون ماریہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے خلاف ہونے والے جرم کے شواہد، گواہ، زخموں کی تصاویر اور ملزم کے اعترافی پیغامات تک پولیس کو مہیا کیے تھے۔
محکمہ پبلک پراسیکیوشن کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ اس مقدمے کو چلانے کے لیے مہیا کیے گئے شواہد کافی تھے لیکن واقعے کی تحقیقات میں پولیس اتنا لمبا وقت لیا کہ کیس ہی خارج ہوگیا۔
ماریہ کہتی ہیں کہ 'تین برسوں تک میں اپنے گھر سے باہر نہ نکل سکی، میں رات کو گھر سے باہر نکلنے سے قاصر تھی اور میں کبھی گھر سے اکیلے نہیں نکلتی۔'
'یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور میں یہاں بھی ہمیشہ اپنی حفاظت کے لیے فکرمند ہی رہتی ہوں۔'
آئس لینڈ کے پولیس کمشنز نے اس کیس میں اپنی فورس کی ناکامی پر معذرت کی ہے۔
سنہ 2019 میں ریپ کے ایک ملزم کو عدالت نے بری کر دیا تھا اور اس مقدمے کے دوران جج کی جانب سے ادا کیے گئے کچھ جملوں کے سبب ملک میں احتجاج بھی ہوئے تھے۔
جج نے ملزم کو بری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے لیے خاتون کا لیدر کا ٹائٹ ٹراؤزر اُتارنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
ان ہی جج کے سامنے ایک اور مختلف مقدمہ بھی آیا تھا جس کے مطابق خاتون اندام نہانی پر آنے والے زخموں کے سبب تقریباً موت کے منھ میں چلی گئی تھیں۔ جج نے اس مقدے کے دوران کہا تھا کہ وہ خاتون 'رف سیکس' میں حصہ لے رہی تھیں۔
ہلدا کہتی ہیں کہ ایسی مثالوں کے سبب کچھ مردوں کو لگتا ہے کہ وہ آرام سے جنسی تشدد کے مقدمات سے بچ کر نکل سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'مردوں کو معلوم ہے کہ انھیں اپنے اعمال کے نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے۔ اگر آپ پر ریپ کا جرم ثابت ہو گیا تب بھی آپ کو سزا سنانا جج کا استحقاق ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کبھی جیل ہی نہ جائیں۔'
گدرون ان مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'ہمارے معاشرے پر کالے سائے منڈلا رہے ہیں۔'
ناکافی حکومتی اقدامات
آئس لینڈ کی حکومت نے Uses in Urdu کو بتایا کہ وہ جنسی تشدد کے خاتمے کی مہم کی حمایت کرتی ہے۔
ایک حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ 'آئس لینڈ جنسی برابری میں دنیا کی قیادت کرتا رہا ہے لیکن اس میں اب بھی بہتری کی ضرورت ہے۔'
تاہم آئس لینڈ کی صدر ہالا توماسدوتر سمجھتی ہیں کہ جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'میرا نہیں خیال کہ حکومتی کوششیں کافی ہیں۔ ہمیں اپنے نظام عدل اور کلچر میں بہتری لانی ہوگی۔ جب تک جنسی تشدد رپورٹ ہوتا رہے گا، ہم یہی کہیں گے کہ ہمارے لیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔'
تاہم وہ کہتی ہیں کہ آئس لینڈ خواتین کے لیے دنیا کے بہترین مقامات میں سے ایک ہے اور انھیں امید ہے کہ ان کا سنہ 2030 تک جنسی برابری سے منسوب مقاصد حاصل کرلے گا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ہلدا بھی کہتی ہیں کہ آئس لینڈ کے معاشرے میں تبدیلی آ رہی ہے اور انھیں یقین ہے کہ خواتین کے لیے حالات مزید بہتر ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'میری بیٹیوں کو پہلی جماعت سے ہی سیکس ایجوکیشن دی جا رہی ہے۔ انھیں اپنی مرضی اور حدود جیسی بنیادی چیزوں کا پتا ہے۔ کاش یہ چیزیں مجھے بھی ان کی عمر میں معلوم ہوتیں۔'