سمارٹ واچ نے شوہر کے حادثے کا پیغام دیا جبکہ وہ تو ریس ٹریک پر موجود تھے: ڈیجیٹل لباس کی حفاظت کے بارے میں۔
ویئر ایبل ٹیکنالوجی، جس میں سمارٹ واچ نمایاں ہے، ایک اربوں ڈالر کی صنعت ہے جس میں صحت کے حوالے سے مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے۔
یہ مصنوعات ورزش کی روٹین، جسمانی درجہ حرارت، دل کی دھڑکن، ماہواری اور نیند کی عادات کو درست گریڈ میں ریکارڈ کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
برطانوی سکریٹری صحت ویس سٹریٹنگ نے این ایچ ایس کے لاکھوں مریضوں کو اس ٹیکنالوجی کی فراہمی کی تجویز دی ہے تاکہ وہ گھر سے کینسر علاج کے ردعمل کی علامات کا ریکارڈ کر سکیں۔
تاہم بہت سے ڈاکٹرز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین صحت کے ڈیٹا کے ریکارڈنگ کے حوالے سے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
میں اس وقت الٹرا ہیومن فرم کی سمارٹ انگوٹھی آزما رہی ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں بیمار ہونے والی ہوں۔
اس نے مجھے ایک چھٹی کے دن خبردار کیا کہ میرے جسم کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور میری نیند پوری نہیں ہوئی۔ اس نے مجھے متنبہ کیا کہ یہ کسی بیماری کی علامت ہو سکتی ہیں۔
میں نے مینوپاز کی علامات کو نظرانداز کیا، لیکن دو دن بعد میں پیٹ کے درد کی وجہ سے بستر پر تھی۔
مجھے طبی مدد کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اگر ضرورت پیش آتی تو کیا پہننے والی ٹیکنالوجی کا ڈیٹا میرے ڈاکٹر کے لئے میرے علاج میں مددگار ہوتا؟ بہت سے برانڈز اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مثلاً اورا سمارٹ رنگ مریضوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں کہ وہ اس ریکارڈ کردہ ڈیٹا کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی رپورٹ اپنے ڈاکٹر کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔
‘سمارٹ واچ کا استعمال بڑھ رہا ہے’
امریکہ میں موجود ڈاکٹر جیک بھی اورا پہننے کی تجویز دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے انہیں مریض کی مجموعی صحت کا اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے، لیکن تمام ڈاکٹرز اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ یہ ہر صورت میں موثر ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہیلن سیلسبری آکسفورڈ میں بطور جرنل فزیشن کام کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بہت زیادہ مریض ان ڈیجیٹل مصنوعات کو نہیں پہن رہے لیکن انھوں نے یہ نوٹس کیا ہے کہ ان اشیاء کا استعمال بڑھا ہے۔
وہ کہتی ہیں، "میرے خیال سے بہت بار یہ کارآمد ہوتی ہیں لیکن شاید اس سے زیادہ مرتبہ یہ خطرے کی حد تک کارآمد نہیں ہوتی، اور مجھے پریشانی ہے کہ ہم ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھ رہے ہیں جہاں لوگ ہائپوکونڈریا یعنی صحت کے بارے میں شدید حد تک فکرمندی میں مبتلا ہیں اور جس میں ہم اپنے جسموں کی حد سے زیادہ نگرانی کر رہے ہیں۔"
ڈاکٹر سیلسبری کا کہنا ہے کہ اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں کہ شاید ابھی ہمیں درست ڈیٹا موصول نہیں ہو رہا، جیسے کہ دل کی دھڑکن کا ریکارڈ زیادہ آیا۔
وہ مزید کہتی ہیں، "مجھے اس چیز کا خطرہ ہے کہ ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ ہر چیز کو ہر وقت مانیٹر کریں اور بجائے اس کے کہ انھیں لگے کہ وہ بیمار ہیں، وہ ڈاکٹر کے پاس جائیں۔"
'پیغام وہی ہے جو ڈاکٹر برسوں سے دے رہے ہیں'
وہ مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ واچ یا کوئی ایپ کینسر کے ٹیومر کی تشخیص کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
دیکھا جائے تو یہ ڈیجیٹل پہناوے آپ کو اچھی عادات اپنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن ان سے جو بہترین پیغام ملتا ہے وہ وہی ہے جو ڈاکٹرز برسوں سے دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر سیلسبری کہتی ہیں کہ اصل میں جو کچھ آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ زیادہ واک کریں، بہت زیادہ شراب مت پیئیں، اور اپنے وزن کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ اور یہ کبھی نہیں بدلے گا۔
ایپل واچ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی گھڑی ہے۔ اگرچہ بعد کے عرصے میں اس کی سیل میں کمی آئی۔
ایپل کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا لیکن مارکیٹنگ کے دوران ان لوگوں کی کہانیوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کی زندگیوں کو بچایا گیا کیونکہ اس ڈیوائس کو استعمال کرنے کی وجہ سے ان کے دل کو مانیٹر کیا گیا تھا۔
لیکن ڈاکٹر کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ نہیں سنا کہ کتنے کیسز میں غلط نتائج سامنے آئے۔
بہت سے کیسز ایسے ہوتے ہیں جہاں مریض اگر ماہرین صحت کے سامنے اپنی پہننے والی ڈیوائسز سے حاصل کردہ ڈیٹا پیش کرتا ہے تو ڈاکٹرز ان کے ڈیٹا پر مکمل اعتماد نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنے پاس موجود آلات کا استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ینگ وئی اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔
وہ نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ طبی ماہرین بہت عملی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب آپ ہسپتال جاتے ہیں اور آپ کا ای سی جی (دل کی دھڑکن کا) ٹیسٹ ہوتا ہے، تو آپ کو بجلی کی کھپت کی فکر نہیں ہوتی کیونکہ یہ مشین دیوار میں پلگ ان ہوتی ہے۔ آپ اپنی گھڑی پر ہر وقت ای سی جی نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے آپ کی گھڑی کی بیٹری ختم ہو جائے گی۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پہننے والی ان ڈیوائسز کی حرکت بھی ایک وجہ ہے جو ان پر اعتماد کو کم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک شخص نے کلائی پر گھڑی باندھی ہوئی ہے تو اس کی اپنی نقل و حرکت کے دوران ڈیٹا جمع کرنے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر ینگ وئی نے میری انگلی میں موجود انگوٹھی کی جانب اشارہ کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ بہترین معیار یہی ہے کہ دل کی دھڑکن کو کلائی سے ناپا جائے یا پھر براہ راست دل سے، لیکن اگر آپ اسے انگلی سے جانچنے پر اصرار کریں گے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ آپ درستگی کی قربانی دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سافٹ ویئر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈیٹا میں ایسی کمی کو دور کرے۔
لیکن یہاں پر پہننے والی ان ڈیوائسز کے لیے کوئی بین الاقوامی معیار موجود نہیں ہے، نہ تو ان کے سینسرز کے لیے، نہ سافٹ ویئر کے لیے جو ان ڈیوائسز کو پاور فراہم کرتا ہے، اور نہ ہی ڈیٹا کے اکٹھا کرنے کے فارمیٹ کے لیے۔
جتنا زیادہ آپ ان ڈیوائسز کو باقاعدگی سے پہنیں گے، اتنا ہی درست ڈیٹا ملنے کا امکان ہے، لیکن یہاں ایک انتباہ کرنے والی کہانی بھی ہے۔
بین وڈ اپنے کام کی وجہ سے گھر سے باہر تھے جب ان کی بیوی کو ایپل واچ پر خطرناک وارننگ ملنا شروع ہوئیں۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کے شوہر کی گاڑی کا حادثہ ہو گیا ہے۔
انھیں ایپل واچ کے نوٹیفکیشن میں یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے نمبر پر پیغام بھیج کر رابطہ کریں، انہیں فون کال نہ کریں تاکہ ایمرجنسی سروس کے لیے لائن کلئیر رہے۔
یہ الرٹس درست تھے اور بین کی اہلیہ کو اس لیے بھجوائے گئے کیونکہ وہ ان کی ایمرجنسی کونٹیکٹ تھیں۔ لیکن اس معاملے میں یہ الرٹس غیر ضروری تھے۔
کیونکہ بین ریس ٹریک پر ڈرائیونگ کر رہے تھے اور ان کے گرد تیز رفتار گاڑیاں تھیں۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ بہت باصلاحیت ڈرائیور تو نہیں لیکن تمام وقت وہ خود کو محفوظ ہی سمجھ رہے تھے۔
اپنے بلاگ میں انھوں نے لکھا کہ کسی واقعے اور کسی انتباہی پیغام کے درمیان فرق کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تجسس ہے کہ یہ ڈیوائس بنانے والے، ایمرجنسی سروس، پیغام وصول کرنے والے لوگ اور دیگر کوئی فرد اس ٹیکنالوجی کے بارے میں مستقبل میں کیا سوچ رکھیں گے۔‘
کنگز فلڈ میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فیلو، پریٹش مسٹری متفق ہیں کہ ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم میں مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے سے متعلق چیلنجز ہیں۔
وہ کہتے ہیں برطانیہ میں بنا کسی واضح حل کے اس حوالے سے پہلے ہی کئی برسوں سے بات چیت ہو رہی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کی طرف سے یہ ایک اچھی مثال بنائی جائے گی جس میں ان کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے کے لیے ان ڈیوائسز کو ہسپتالوں کے علاوہ اور کمیونٹی سینٹرز کے اندر استعمال کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ بنیادی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کو قابل بنائے بغیر اور ورک فورس یعنی افرادی قوت کو ہنر سیکھائے بغیر، انھیں تعلیم اور اعتماد سمیت انھیں باصلاحیت بنائے بغیر میرے خیال سے یہ بھی ایک چیلنج ہو گا۔