شامی باغیوں کی دمشق کی طرف پیش قدمی: بشار الاسد کی قسمت غیر ملکی اتحادیوں کے ہاتھ میں
شام میں جس تیزی سے صدر بشار الاسد کی حکومت کے مخالف باغیوں کو کامیابیاں ملی ہیں، وہ غیرمعمولی ہیں۔
جس وقت باغی جنگجو شامی شہر حما میں داخل ہو رہے تھے، اس وقت بھی حکومتی عہدیداران اور ان کے حامی یہی سوچ رہے تھے کہ ملک کی فوج ان حملہ آوروں کو روکنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
لیکن کچھ ہی دیر بعد شامی فوج نے تسلیم کیا کہ انھوں نے پسپائی اختیار کر لی ہے اور اس شہر کا کنٹرول باغی گروہوں کے پاس چلا گیا ہے۔
شام میں باغیوں نے ایک ہی ہفتے میں دو بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے اور انتہا پسند اسلامی گروہ ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں ان جنگجوؤں کا اگلا نشانہ اب حمص ہے۔
ہزاروں لوگوں نے متوقع لڑائیوں کے پیشِ نظر پہلے ہی حمص سے دوسرے مقامات پر منتقل ہونا شروع کر دیا ہے۔
موجودہ حالات میں صدر بشار الاسد اور ان کے حامیوں کے لیے روس اور ایران کے لیے مزید مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
حمص سٹریٹجک اعتبار سے حما اور حلب سے زیادہ اہم ہے، کیونکہ اس کے مغرب میں وہ علاقے واقع ہیں جنھیں بشار الاسد کے خاندان کا گڑھ کہا جاتا ہے، جبکہ اس کے جنوب میں شامی دارالحکومت دمشق واقع ہے۔
ہیئت تحریر الشام برسوں سے شمال مغربی صوبے ادلب میں اپنی طاقت کو بڑھا رہا تھا اور گذشتہ ہفتوں میں اس کی کامیابیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بشار الاسد کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے تصدیق کی ہے کہ باغیوں کا مقصد بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنا ہے۔
اب ساری توجہ ایک بار پھر شامی صدر بشار الاسد پر مرکوز ہوگئی ہے: کیا وہ اب بھی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوششوں کا ناکام بنانے کی سکت رکھتے ہیں یا نہیں؟
ماضی میں بھی شامی فوج تقریباً یہ جنگ ہار گئی تھی، لیکن بیرونی قوتوں کی مدد کے سبب بشار الاسد اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔
شامی فوج میں شامل اہلکاروں کی تنخواہیں کم ہیں، ان کا مورال بھی کمزور ہے، اور اکثر اہلکار فوجی ملازمت چھوڑ کر بھی بھاگ جاتے ہیں۔
جیسے ہی حلب اور حما میں شامی فوج ناکام ہوئی، صدر بشار الاسد نے ایک حکمنامے کے ذریعے فوجی اہلکاروں کی تنخواہ میں 50 فیصد اضافہ کردیا۔ لیکن یہ اقدام شامی صدر کی کامیابی کے لئے کافی نہیں ہوگا۔
حما میں شامی فوج کو روسی فضائیہ کی مدد حاصل تھی، تاہم یہ مدد بھی ناکافی ثابت ہوئی۔
بنیادی طور پر یہ کہنا ضروری ہے کہ روسی طیاروں نے ماضی کے مقابلے میں اس بار شامی فوج کو کم مدد فراہم کی، جس سے یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ شاید روس اس بار شامی حکومت کے لئے کوئی بڑا کردار ادا نہ کر پائےگا۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ روس اب تقریباً تین برسوں سے یوکرین کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اس کی تمام عسکری قوت وہاں استعمال ہو رہی ہے۔
لیکن روس کے پاس ابھی بھی بشار الاسد کی حمایت کرنے کی وجہ موجود ہے۔ ماضی میں صدر ولادیمیر پوتن نے شام کی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا، جبکہ امریکہ سمیت مغربی قوتیں اپنے وعدوں کے باوجود باغیوں کی زیادہ مدد نہیں کر پائیں۔
شامی شہر طرطوس میں روس کا واحد بحری اڈہ بھی موجود ہے جو بحیرہ روم میں اکلوتا روسی اڈہ ہے۔ اگر شامی باغی حمص کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے لئے طرطوس کی راہیں بھی کھل جائیں گی، جس کے سبب روسی بحری اڈے کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ایسے میں روس صدر بشار الاسد کے لئے اپنی سیاسی اور سٹریٹجک حمایت جاری رکھے گا۔
اس تنازع میں ایک اور بڑا سوالیہ نشان ایران اور اس سے منسلک عسکری گروہوں پر ہے، جنھوں نے ماضی میں بشار الاسد کا اقتدار قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
حزب اللہ کے نئے سربراہ نعیم قاسم نے اعلان کیا ہے کہ وہ شامی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور صدر بشار الاسد کے خلاف سازش میں اسرائیل اور امریکہ ملوث ہیں۔
تاہم حزب اللہ کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد لبنانی تنظیم خود کو سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور ماضی کے مقابلے میں کمزور ہو گئی ہے۔
تاہم یہ بات واضح ہے کہ حزب اللہ اب بھی شامی حکومت کی حمایت کرنے کے لئے پُرعزم ہے اور لبنان میں شامی سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے فوجی دستے شام میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں انہیں حمص میں تعینات کیا جائے گا۔
جہاں تک بات رہی ایران کی، تو وہ اس وقت خطے میں براہِ راست یا اپنی پراکسیز کے ذریعے کسی سے بھی ٹکراؤ سے گریز کر رہا ہے۔
اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران اس مرتبہ تمام تر عسکری قوت صدر بشار الاسد کے حق میں شاید استعمال نہ کرپائے۔
ایسی بھی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ شاید عراق سے طاقتور شیعہ مسلح گروہ شام میں حکومت کی حمایت میں اُتر جائیں لیکن ملک کے طاقتور شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے اس حکمت عملی کی مخالفت کی ہے۔
ایسے میں صدر بشار الاسد کی کامیابی کا تمام تر دارومدار شامی فوج اور اپنے اتحادیوں پر ہوگا۔
شام میں باغی گروہوں میں بھی آپس میں تقسیم پائی جاتی ہے۔ ہیئت تحریر الشام کے علاوہ وہاں کردش مسلح گروہ اور دیگر تنظیمیں بھی متحرک ہیں۔
شامی حکومت کے مخالف گروہوں میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ بھی شامل ہے جو کہ ملک میں جاری کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر ملک کے صحرائی علاقوں میں ایک بار پر خود کو مضبوط کرسکتی ہے۔
ماضی میں صدر بشار الاسد کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے مخالفین آپس میں اتحاد قائم رکھنے میں ناکام رہے تھے۔ اس وقت بھی یقیناً وہ اور ان کے حامی یہی امید کر رہے ہوں گے کہ ان کے مخالفین کے درمیان یہ اختلافات قائم رہیں۔
اس وقت اقلیتی برادریوں میں بھی صدر بشار الاسد کی حمایت برقرار ہے۔ وہ ہیئت تحریر الشام اور دیگر جہادی تنظیموں کو اپنے لیے بڑا خطرہ تسلیم کرتے ہیں۔
ہیئت تحریر الشام نے اپنی راہیں القاعدہ سے جُدا ضرور کرلی ہیں لیکن اب بھی بہت سے لوگ اسے القاعدہ کا حصہ ہی تصور کرتے ہیں۔
آخر میں صدر بشار الاسد کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار بیرون ملک اتحادیوں کی مدد پر ہی ہوگا۔
چار سال قبل روس، ایران اور ترکی نے شام میں جنگ بندی پر معاہدے سے اتفاق کیا تھا لیکن گذشتہ دنوں تیزی سے بڑھنے والی کشیدگی کے سبب شاید ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔
یہ قوتیں بہت جلد اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کریں گی اور یہ سوچیں گی کہ صدر بشار الاسد ان کے مفادات کے لیے اب بھی ضروری ہیں یا نہیں۔