مسلمان خاندان جو ہندوؤں کے دباؤ کے باعث اپنا گھر فروخت کرنے پر مجبور ہوا
انڈیا میں ایک مسلمان خاندان کو ہندو ہمسائیوں کے احتجاج کے باعث اپنا مکان بیچنا پڑا ہے جس میں وہ ابھی رہائش پذیر بھی نہیں ہوئے تھے۔
ریاست اترپردیش کے شہر مراد آباد میں ایک مسلمان جوڑے نے جو دونوں میاں بیوی ڈاکٹر ہیں، ایک ہندو ڈاکٹر سے شہر کے متمول رہائشی بلاک ٹی ڈی آئی سٹی گھر خریدا تھا۔
جوں ہی اس خریداری کی خبر عام ہوئی وہاں کے ہندو رہائشیوں نے احتجاج شروع کر دیا۔
احتجاج کی ایک ویڈیو میں، جو وائرل ہو چکی ہے، رہائشیوں میں سے ایک، میگھا اروڑا کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ رہائشی ڈاکٹر اشوک بجاج نے ان سے مشورے کیے بغیر ایک مسلم خاندان کو اپنا گھر بیچ دیا ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک مسلم خاندان ہمارے مقامی مندر کے سامنے رہائش پذیر ہو۔ یہ ہماری خواتین کی حفاظت کا معاملہ بھی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ یہ فروخت منسوخ کی جائے اور انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نئے مالکان کے نام پر گھر کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ ہم کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کو یہاں آکر رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جب تک وہ یہاں سے نہیں جاتے، ہم انھیں داخل نہیں ہونے دیں گے اور احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
کئی رہائشیوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر میں جا کر شکایت درج کروائی ہے اور دفتر کے باہر ڈاکٹر بجاج اور مسلم جوڑے کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
احتجاج کرنے والے رہائشیوں نے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے ہیں۔
ڈاکٹر بجاج نے جمعہ کے روز Uses in Urdu کو بتایا کہ شہر کے منتخب نمائندے کی مدد سے مسئلہ حل کر لیا گیا ہے اور نئے مسلمان مالکان اپنا مکان ہندو خاندان کو دوبارہ فروخت کریں گے جو پہلے ہی اس رہائشی سوسائٹی میں رہ رہا ہے۔
ڈاکٹر بجاج نے، جو شہر میں ایک آنکھوں کا ہسپتال چلاتے ہیں اور اس سوسائٹی میں چھ سال سے زیادہ عرصے سے رہ رہے تھے، بتایا کہ انھوں نے یہ مکان مسلمان جوڑے کو فروخت کیا تھا جو دونوں ڈاکٹر ہیں اور جن کے خاندان ایک دوسرے کو 40 سالوں سے جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان جوڑا اب اس مکان میں منتقل ہونے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مکان کی فروخت پر ہونے والا تنازعہ غیر ضروری تھا ور انھیں توقع نہیں تھی کہ یہ قومی خبر بن جائے گا۔
احتجاج اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے مسلم جوڑے کو اپنے پڑوسیوں سے متعارف کرایا۔
انھوں نے کہا کہ مکان کی فروخت پر ہونے والے ردعمل نے انھیں ’حیران‘ کر دیا ہے کیونکہ کالونی میں پہلے سے ہی کئی مسلمان خاندان رہ رہے ہیں اور ’ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ تنازع شہر کی ساخت کو تبدیل کر رہا ہے۔ ’اس فروخت سے کسی قسم کی بے چینی پیدا کرنا مقصد نہیں تھا۔ اور یہ کوئی غیر قانونی لین دین نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کالونی میں رہائشیوں کی کوئی ایسوسی ایشن بھی نہیں تھی جس سے اس فروخت کی منظوری کی ضرورت ہوتی۔ انھوں نے اچانک جاگ کر ایسی ایسوسی ایشن بنا لی ہے۔‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مراد آباد میں کسی ہندو اکثریتی علاقے میں مکانات خریدنے پر مسلم رہائشیوں کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ سنہ 2021 میں دو مسلمان خاندانوں نے ہندوؤں سے مکان خریدے تھے تو سخت گیر ہندو تنظیموں اور رہائشیوں نے احتجاج کیا تھا۔
انڈیا کے دیہی علاقوں میں علیحدہ رہائش کا رجحان طویل عرصے سے موجود ہے، جہاں مختلف ذاتوں اور مذاہب کے لوگ الگ الگ رہتے ہیں۔ شہری علاقوں کو ایسا مقام تصور کیا جاتا تھا جہاں لوگ مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ تاہم، حقیقت میں بہت سے شہری علاقے اب بھی علیحدگی کے رجحان کا شکار ہیں۔
کئی انڈین شہروں میں اقلیتی برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں، کے خلاف امتیازی سلوک عام ہے، جہاں بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز کھانے کی عادات جیسے سبزی خور ہونے پر اصرار کرتی ہیں تاکہ انھیں اس علاقے سے باہر رکھا جا سکے۔
گجرات اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں مسلمان اکثر کہتے ہیں کہ وہ ہندو محلوں میں گھر خریدنے یا کرائے پر لینے سے قاصر ہیں۔ چند سال پہلے، بالی ووڈ اداکار عمران ہاشمی اس وقت ہیڈلائنز میں آئے جب انھوں نے الزام لگایا کہ انھیں ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ممبئی میں فلیٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
دہلی یونیورسٹی میں سیاست اور عوامی پالیسی کے پروفیسر تنویر اعجاز کہتے ہیں کہ مسلمان جوڑے کو ان کی پسند کا گھر خریدنے سے محروم کرنا ’امتیازی‘ اور مکمل طور پر ’غیر آئینی‘ ہے۔
’یہ ان کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ایک شخص کے مساوات اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور اگر اس طرح کے واقعات بڑھتے ہیں تو یہ ہندوستان کے آئین کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘
پروفیسر اعجاز کہتے ہیں کہ دلتوں (جنھیں پہلے اچھوت کہا جاتا تھا) اور خواتین جیسے کمزور گروہوں کے تحفظ کے لیے خصوصی حقوق ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون نہیں ہے جو ہندوستان میں سب سے زیادہ کمزور گروہ ہیں؟
اس واقعے پر انڈیا میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔
مزاحیہ فنکار آکاش بنرجی نے ایکس پر لکھا: ویلکم ٹو نیو انڈیا۔ انھوں نے سوال کیا: ’ایک ڈاکٹر نے اپنا گھر دوسرے ڈاکٹر کو بیچا۔۔۔ آخر کیوں یہ مراد آباد کے ایک پوش ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑے احتجاج اور ہنگامے کی وجہ بنا؟‘
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رکن پارلیمنٹ جان بریٹاس نے لکھا: ’ہم بطور قوم ہمیشہ تنوع اور اتحاد پر فخر کرتے ہیں۔ ہمیں ان واقعات پر شرم آنی چاہیے۔‘
ایک اور صارف نے ایکس پر لکھا کہ جو لوگ اس جوڑے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، ’وہ نامعلوم یا گمنام افراد نہیں تھے۔ وہ لوگ تھے جو بغیر کسی خوف یا شرمندگی کے اپنی تعصب پسندی اور اسلاموفوبیا کا عوامی مظاہرہ کر رہے تھے۔‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا کی مسلم برادری کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے اکثریت بی جے پی کے زیر حکومت ریاستوں سے رپورٹ ہوئی ہے ۔۔۔ مراد آباد بھی بی جے پی کی حکمرانی والے اتر پردیش میں واقع ہے۔ بی جے پی ان الزامات کی ہمیشہ تردید کرتی ہے۔
پروفیسر اعجاز کا کہنا ہے کہ مراد آباد کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی تفریق بہت گہری ہو چکی ہے۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ انھیں امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے۔
ان کے مطابق ’ہندومت پلورل ازم یعنی تکثیریت کے نظریے یا مل جل کر رہنے پر مبنی ہے۔ زیادہ تر لوگ جن سے میں ملتا ہوں سمجھتے ہیں کہ نفرت ان کے مذہب کے خلاف ہے۔ اور یہی بات مجھے امید دلاتی ہے۔‘