گلابی گیند کے کھیلنے میں وہ غلطی جو روہت شرما اور کوہلی کے لیے پریشانی بن گئی
پہلے ہی دن 11 وکٹیں گنوانے والی ٹیم کے لیے ٹیسٹ میچ جیتنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی جب گلابی گیند دو طرح کی روشنیوں میں استعمال کی جا رہی ہو۔
انڈین ٹیم کا فلڈ لائٹس میں گلابی گیند سے کھیلنے کا کم تجربہ ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں صاف نظر آیا۔ آسٹریلیا کو اسی لیے 10 وکٹوں سے شکست ہوئی اور سیریز ایک، ایک برابر ہوگئی۔
شکست کے بعد کپتان روہت شرما نے سابق کرکٹر اور اب کمنٹیٹر ایشا گوہا سے کہا کہ 'یہ پورا ہفتہ ہمارے لیے اچھا نہیں رہا۔ ہم نے اچھا نہیں کھیلا۔'
'آسٹریلوی ٹیم نے ہم سے بہت بہتر کھیلا۔ ہمارے پاس میچ میں واپسی کے بہت سے مواقع تھے لیکن ہم ان سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ اسی کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی۔ بلاشبہ ہم نے پرتھ میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی لیکن ہر میچ کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ اب ہماری پوری توجہ اگلے میچ پر ہے۔'
اس شکست کے بعد خبر رساں ادارے اے ایف پی کے لیے کرکٹ تجزیہ کار کلدیپ لال نے سوشل پلیٹ فارم پر لکھا کہ 'اس قسم کی شکست کی توقع نہیں تھی۔'
اس شکست کی وجہ گلابی گیند کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ گلابی گیند کے ساتھ کھیلنے کے لیے اسے سمجھنا ضروری ہے۔ آخری لمحے تک غور سے دیکھنا ہوتا ہے کہ اس کی کالی سلائی کس سمت میں گر رہی ہے۔ انڈین بلے باز ایسا کرنے میں ناکام رہے۔
آسٹریلیا کو اس گیند سے کھیلنے کا اچھا تجربہ ہے۔ اس کے بولرز نے گلابی گیند کا صحیح استعمال کیا۔ انھوں نے آف سٹمپ پر گیند کو قدرے اونچا رکھ کر انڈین بلے بازوں کو اسے کھیلنے پر مجبور کیے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بلے باز وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہوئے۔
تاہم آسٹریلوی فاسٹ بولر مچل سٹارک نے میچ کے بعد کہا کہ 'گلابی گیند بالکل سفید اور سرخ گیند کی طرح ہوتی ہے۔ ہم نے بہت مثبت سوچ کے ساتھ بولنگ اور بیٹنگ کی ہے۔ اس پچ پر بولنگ کرنا اچھا رہا۔'
تاہم اگر ہم انڈین بولرز کا جائزہ لیں تو وہ گلابی گیند کے لیے درکار صلاحیت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
محمد سراج نے پہلے دن صرف 15 فل لینتھ گیندیں کیں اور دوسرے دن 24.7 فیصد۔ جبکہ جسپریت بمرا بھی اچھی لینتھ نہ پکڑ سکے۔ ہرشیت رانا نے دونوں دن صرف 20 اور 31 فیصد گیندیں ایسی کیں جن پر وکٹ حاصل کی جا سکتی تھی۔
پرتھ ٹیسٹ میں انڈیا کی جیت کی سب سے بڑی وجہ اس کے بولرز کی درست لائن اور لینتھ تھی۔ مگر وہ اس میچ میں غائب تھی جس سے میچ کا نتیجہ متاثر ہوا۔
انڈیا کے بولنگ کوچ مورنے مورکل نے اعتراف کیا کہ 'اس ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے بولرز نے پہلے دن سے ہی اچھی بولنگ کی اور ہمیں رنز بنانے سے روکا۔ یہ گیند نرم ہونے کے بعد رنز دیتی ہے۔ رات کے سیشن کے دوران بلے بازوں میں بے چینی بڑھ جاتی ہے۔'
'مجھے یقین ہے کہ ٹیم ابھی اس گیند کو کھیلنے کا صحیح طریقہ سیکھ رہی ہے کیونکہ انہیں اس کا تجربہ نہیں ہے۔ ٹیم ابھی بھی گلابی گیند کے ساتھ کھیلنا سیکھ رہی ہے۔'
ٹریوس ہیڈ ورلڈ کپ فائنل کے بعد سے بھارت کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ایڈیلیڈ میں مشکل حالات میں بھی انہوں نے 141 گیندوں پر 140 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی۔
اس اننگز میں ان کے 14 چوکے اور چار چھکے شامل تھے۔ ان کی اننگز نے یہ ظاہر کیا کہ بھارتی بولرز کے پاس ان کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ اس اننگز کی بدولت وہ بھارت کو جیت کے امکانات سے دور لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔
اب تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شام کے سیشن میں گلابی گیند سے اکثر وکٹیں گرتی ہیں۔ آسٹریلوی کھلاڑی فلڈ لائٹس میں پانچ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔
روہت شرما کی فارم نے بھی اس میچ پر بڑا اثر ڈالا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ دن کے کھیل کے اختتام تک ناٹ آؤٹ واپس لوٹیں گے۔
لیکن پیٹ کمنز کی طرف سے دن کی بہترین گیند نے ان کی وکٹیں اڑا دیں۔
روہت شرما کی 2024-25 میں بیٹنگ اوسط صرف 11.83 ہے۔ کپتان کے طور پر کھیلتے ہوئے یہ ان کی سب سے کمزور اوسط ہے۔
جس طرح سے وہ آؤٹ ہوئے، اس سے لگتا ہے کہ آسٹریلوی بولرز کو معلوم ہے کہ انھیں کس لمبائی پر گیند کرنی ہے۔ وہ آف سٹمپ کے اردگرد ہلکی سوئنگ سے پھنس جاتے ہیں۔
اس سیزن میں اپنی آخری 12 میں سے آٹھ اننگز میں روہت 10 رنز سے اوپر نہیں پہنچ پائے۔
وراٹ کوہلی مسلسل سلپ یا وکٹ کے پیچھے کیچ آؤٹ ہو رہے ہیں۔ اتنے بڑے ٹیسٹ میچ میں اگر کوہلی جیسا بلے باز رنز نہیں بناتا تو یہ ٹیم کے خلاف جاتا ہے اور ٹیم جیت کی امید نہیں رکھ سکتی۔
واضح طور پر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مچل سٹارک، پیٹ کمنز اور سکاٹ بولانڈ نے کے خلاف زبردست ہوم ورک کیا ہے۔ کوہلی کا اس طرح آؤٹ ہونا ٹیم کے لیے اگلے میچوں میں پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
یقیناً اس شکست کے بعد روہت شرما اور کوہلی کے بارے میں سوالات اٹھیں گے کہ وہ اس ٹیم میں کب تک رہیں گے۔
یہ سیریز ایک ایک سے برابر ہو کر مزید دلچسپ ہو گئی ہے۔ ایسی صورت میں، اگلے ٹیسٹ میچ میں دلچسپ مقابلے کی توقع کی جا سکتی ہے۔