سافٹ گرلز: نوکری چھوڑ کر گھر کی خاتون بننے کا رجحان اور سویڈن میں اس کی مقبولیت کی وجوہات کیا ہیں؟
ولما لارسن کی عمر 25 برس ہے اور اُن کا تعلق سوئیڈن سے ہے۔ ماضی قریب میں انہوں نے کئی جگہوں پر ملازمت کی ہے، لیکن ایک سال پہلے انہوں نے جاب چھوڑ کر ’سٹے ایٹ ہوم گرل فرینڈ‘ بننے کا فیصلہ کیا (یعنی نوکری چھوڑ کر اپنے پارٹنر کے گھر رہنا اور گھریلو کاموں میں مدد کرنا)۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ سب کر کے وہ اتنی خوش کبھی نہیں ہوئیں جتنی اب ہیں۔
وہ کہنا ہے کہ ’میری زندگی آسان ہو گئی ہے۔۔۔ اب میں بہت پریشان نہیں رہتی ہوں۔‘
ولما کے بوائے فرینڈ گھر سے آن لائن کام کرتے ہیں اور اُن کا بیشتر وقت لیپ ٹاپ پر گزرتا ہے۔ جبکہ ولما گھر کے کاموں کے علاوہ باقاعدگی سے جِم جاتی ہیں، کافی پینے باہر جاتی ہیں یا کھانا بناتی ہیں۔
ولما اور اُن کے بوائے فرینڈ سویڈن کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بڑے ہوئے اور اب یہ دونوں سیر و سیاحت کرتی ہیں اور فی الحال اپنی سردیاں سائپرس میں گزار رہے ہیں۔
ولما کہتی ہیں کہ ان کا بوائے فرینڈ انہیں (گھر رہنے اور امور خانہ داری نبھانے کے عوض) ہر مہینے کچھ رقم بطور تنخواہ دیتا ہے۔ ’اگر مجھے زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو میں اس سے مزید مانگ لیتی ہوں۔ اور اگر رقم میری ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو میں کچھ بچت کر لیتی ہوں۔‘
ولما انسٹا گرام، یو ٹیوب اور ٹک ٹاک پر اپنی پوسٹ کے ذریعے اپنا لائف سٹائل صارفین کے ساتھ شیئر کرتی رہتی ہیں۔ انہیں فالو کرنے والوں کی تعداد 11 ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور ان کی کچھ پوسٹوں پر تو چار لاکھ سے زائد لائکس آ چکے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے اپنے کانٹینٹ سے کچھ نہیں کماتی ہیں۔
اپنی سوشل میڈیا پوسٹس پر وہ ’ہاؤس وائف‘ یا ’سٹے ایٹ ہوم گرل فرینڈ‘ جیسے ہیش ٹیگز کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنے لیے ’سافٹ گرل‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔ ’سافٹ گرل‘ ایک ایسی شناخت ہے جس میں کسی خاتون کی جانب سے اپنے کیریئر پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ایک آسان اور زیادہ نسوانی طرز زندگی اپنایا جاتا ہے۔
سنہ 2010 سے ’سافٹ گرل‘ نامی ٹرینڈ دنیا کے مختلف حصوں میں سوشل میڈیا پر موجود رہا ہے۔ لیکن سویڈن جیسے ملک میں، جہاں پچھلے پانچ دہائیوں کے دوران دوہری آمدن والے گھرانوں پر پالیسیوں کو فروغ دیا گیا ہے، اس تصور کی حالیہ شهرت نے چند لوگوں کو حیران کر دیا ہے اور معاشرے میں تقسیم بھی پیدا کی ہے۔
سویڈن میں نوجوان کے سب سے بڑے سالانہ سروے ’انڈومسبارومنٹرن‘ کے نتیجے میں پچھلے سال سافٹ گرل نامی رحجان قومی سطح پر اجاگر ہوا۔ اس سروے میں 15 سے 24 برس کی عمر کے افراد کو کہا گیا کہ وہ سنہ 2024 کے ٹرینڈز کی پیش گوئی کریں۔
اسی حوالے سے اگست میں جاری ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ سکول جانے والی سات سے 14 برس کی لڑکیوں میں بھی سافٹ گرل کی مقبولیت کا شرح تقریباً 14 فیصد ہے۔
اس ضمن میں ہونے والی سروے سے منسلک محقق جوہانہ گورانسن کا کہنا ہے کہ یہ تصور اس ’گرل باس‘ کے آئیڈیل سے بہت پرے ہے جو ہم نے بہت سالوں سے دیکھا ہے اور جس میں زندگی کے ہر پہلو میں کامیابی کے پیچھے بہت سے مطالبات ہوتے ہیں۔
سرکاری سطح پر اس وقت کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں جن سے یہ پتہ چل سکے کہ کتنی نوجوان لڑکیاں اس ٹرینڈ کو اپناتے ہوئے نوکریاں چھوڑ رہی ہیں۔
تاہم اس کے باوجود سویڈین میں اخبارات میں اس ضمن میں شائع ہونے والے اداریوں، سیاسی جماعتوں کی پینل ڈسکشنز اور سرکاری ٹی وی پر اس معاملے پر بحث اب ایک اہم موضوع ہے۔
سویڈن میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنی والی جماعت کی شریک بانی گورڈن سکیمن کہتی ہیں کہ انھوں نے حال ہی میں اس موضوع پر ہونے والے مباحثوں میں حصہ لیا ہے۔
وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کے لیے اپنے پارٹنر کی دولت پر انحصار کرنا یا گھر بیٹھ جانا ’بہت خطرناک‘ ہے اور یہ صنفی مساوات کے لیے ’ایک قدم پیچھے ہٹنے‘ پر مبنی رجحان ہے۔
وہ یہ توجیہ پیش کرتی ہیں کہ سویڈن کے نوجوان ملک کی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کے زیر اثر آ رہے ہیں۔
وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ سویڈن میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کو اپنانے سے پہلے عوامی شعور کی کمی ہے۔ ’آج کی نوجوان خواتین اس تاریخ کو نہیں دیکھتی ہیں کہ کیسے خواتین کو اپنے حقوق کے لیے لڑنا پڑا، کام کرنے کا حق، تنخواہ کا حق، اور معاشی آزادی کا حق۔‘
تاہم دوسری جانب سویڈن ڈیموکریٹس پارٹی ’سافٹ گرلز‘ کے رجحان کے حوالے سے مثبت رویہ رکھتی ہے۔
پارٹی کے یوتھ ونگ کے ترجمان ڈینس ویسٹربرگ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہیے، اور اگر آپ کے پاس ایسا کرنے کا معاشی آپشن موجود ہے (یعنی پارٹنر کی تنخواہ ہر گزر اوقات) تو یہ آپ کے لیے اچھا ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم اب بھی ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کرئیر میں آنے بڑھنے کے تمام مواقع موجود ہیں۔ یہاں حقوق محفوظ ہیں، اور ہمیں زیادہ روایتی طور پر اپنی زندگی گزارنے کا چناؤ کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔‘
ورک، لائف بیلنس کے لیے سویڈن عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، یہاں زیادہ تر ملازمین کو سال میں چھ ہفتے کی چھٹی ملتی ہے جبکہ کام کرنے کے اہل افراد میں سے محض ایک فیصد سے بھی کم افراد ہفتے میں 50 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں۔
تاہم اس سب کے باوجود ایک حالیہ تحقیق نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
گورینسن کا خیال ہے کہ سافٹ گرلز کا رجحان اس وقت عالمی سطح پر کام کے رجحانات کی ایکسٹینشن ہو سکتا ہے جس میں ملازمین کی حوصلہ افزائی کر جاتی ہے کہ کام کی جگہ پر ضرورت سے زیادہ دباؤ نہ لیں۔
دوسری جانب جنریشن زی، یعنی وہ افراد جو سنہ 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئے، سوشل میڈیا پر زیادہ تر ایسے مواد کی تخلیق کر رہے ہیں جو فارغ اوقات کو منانے کے متعلق ہیں، بجائے اس کے کہ وہ کریئر کے فروغ پر توجہ دیں۔
اگر آپ سوشل میڈیا پر لائف سٹائل کے موضوعات پر نظر ڈالیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ نوکری کا حصہ بہت کم ہے، یعنی جو مواد بنایا جا رہا ہے، اس میں ملازمت یا اس سے متعلق مقاصد کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔
گورنسن کا کہنا ہے کہ اگر یہ نوجوانوں کی عام زندگی گزارنے کی عکاسی ہے تو ممکن ہے کہ وہ روزانہ آٹھ گھنٹے دفتر میں گزارنے کے معاملے میں زیادہ پرجوش نہ ہوں۔
تاہم، سب سے اہم بات یہ ہے کہ آیا یہ رجحان سویڈن کی صنفی مساوات کے اہم پالیسیوں کا ردعمل ہے۔
سویڈن میں کام کرنے والی ماؤں کا تناسب یورپ میں سب سے زیادہ ہے، مگر سرکاری اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین اب بھی مردوں کے مقابلے میں گھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال میں زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔
اسی طرح، یہاں مردوں اور عورتوں کے درمیان آمدنی کا فرق یورپی یونین کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔
لارسن مستقبل میں بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'میں سمجھتی ہوں کہ زیادہ تر خواتین کام کے دباؤ سے تھک چکی ہیں۔ اور میں اس حوالے سے اپنی ماں اور دادی کے بارے میں سوچتی ہوں، جو ہمیشہ دباؤ کا شکار رہتی تھیں۔'
ماہر معاشیات شوکا اہرمن، جو کہ سویڈن کے سب سے بڑے پنشن فنڈز ایس پی پی سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین سوفٹ گرل ٹرینڈ کے تحت کام چھوڑ دیں گی اور اس سے ملکی معیشت پر کوئی اثر پڑے گا۔
وہ امید رکھتے ہیں کہ سافٹ گرل کے حوالہ سے حالیہ بحث سیاست دانوں اور کاروباری اداروں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ سویڈن میں جاری عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔