اسد حکومت کا خاتمہ، اسرائیل کا تاریخ کا سب سے بڑا فضائی آپریشن، شام کے مزید علاقوں پر قبضہ، آرمی، فضائیہ اور بحریہ کو تباہ کرکے رکھ دیا

اسرائیل کے فضائی حملے
دمشق/ تل ابیب (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل نے شام کے مختلف علاقوں پر شدید فضائی حملے کیے ہیں، جن میں اہم فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ حملے اس وقت کیے گئے جب اپوزیشن فورسز نے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا اور شام میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سنجیدہ مذاکرات نہ کئے تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کا اعلان ہوگا، شوکت یوسفزئی
لاذقیہ پر بمباری
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق بندرگاہی شہر لاذقیہ کے قریب اسرائیل نے ایک فضائی دفاعی مرکز کو نشانہ بنایا، شامی بحری جہازوں کو نقصان پہنچایا اور فوجی گوداموں کو تباہ کر دیا۔ دارالحکومت دمشق اور اس کے اطراف میں حملوں کا ہدف فوجی تنصیبات، تحقیقی مراکز، اور الیکٹرانک وارفیئر ایڈمنسٹریشن تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نامعلوم شرپسندوں نے قلات مونومنٹ کو نذر آتش کردیا
اہم فوجی مقامات کی تباہی
شام میں انسانی حقوق کے مبصر ادارے ایس او ایچ آر کے مطابق اسرائیل نے شام کے اہم ترین فوجی مقامات کو تباہ کر دیا ہے، جن میں ہوائی اڈے، گودام، طیاروں کے سکواڈرن، ریڈار، فوجی سگنل سٹیشن، اور مختلف مقامات پر ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ڈپو شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری حج سکیم: تین مرتبہ مدت بڑھانے کے باوجود 7 ہزار کم درخواستیں موصول، تمام کامیاب قرار
اسرائیلی وزیر خارجہ کا بیان
اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون سار نے گولان کی پہاڑیوں کے مشرق میں بفر زون میں فوجی دستے بھیجنے کو ایک "محدود اور عارضی اقدام" قرار دیا ہے جو "سیکیورٹی وجوہات" کے لیے کیا گیا۔ اسرائیل نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران شامی سرزمین پر تقریباً 250 فضائی حملے کیے ہیں تاکہ سابق حکومت کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کیا جا سکے۔ اسرائیلی میڈیا نے اس کارروائی کو اسرائیلی فضائیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی فضائی کارروائی قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت موجودہ صورتحال میں ذمہ دارانہ حل کی طرف جائیں: ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
منظم حملے اور مقاصد
الجزیرہ کے رپورٹر رسول سردار نے دمشق سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے حملے منظم ہیں اور ان کا مقصد شام کے دفاعی مراکز کو تباہ کرنا ہے۔ تازہ حملوں میں تین بڑے ہوائی اڈوں (حمص، قامشلی، اور دمشق)، ہتھیاروں کے گوداموں، اور دیگر سٹریٹجک فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائیاں اس لیے کی جا رہی ہیں تاکہ یہ سٹریٹجک سہولیات اور فوجی سازوسامان اپوزیشن کے ہاتھ نہ لگیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی کاروباری برادری نے ’’سپورٹ ترکیہ‘‘ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا
شامی حکومت کا ردعمل
شام کی نو منتخب سیلویشن حکومت، جسے بشار الاسد کے وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے اقتدار سونپنے پر اتفاق کیا تھا، نے فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ امریکہ میں مسلم تنظیم کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز نے امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "شامی عوام کو غیر ملکی قبضے اور تشدد سے آزاد ہو کر اپنے ملک کی تعمیر نو کا حق حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ تعلیم میں فوری اور مؤثر سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے، ابراہیم حسن مراد
بافر زون میں اسرائیلی قبضہ
یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب اسرائیلی فوج نے شامی گولان کی پہاڑیوں کے قریب بفر زون میں مزید علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کے مطابق یہ پیش قدمی شام کے ساتھ 50 سالہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے
الجزیرہ کے سینئر تجزیہ کار مروان بشارہ نے کہا کہ اسرائیل نے دمشق کی اندرونی مصروفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولان کی پہاڑیوں اور شاید اس سے آگے اپنی موجودگی کو بڑھا دیا ہے۔ اسرائیل اسے عارضی کہہ رہا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ عارضی کا مطلب کیا ہے، جیسا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں چھ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔