پاکستان بننا معجزہ تھا، قائد اعظم کو2 بار روتے دیکھا، شاید انہیں اتنے بڑے پیمانے پر ہجرت اور قتل و غارت کا اندازہ نہ تھا ورنہ ضرور اس کا بندوبست کرتے
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 14
پاکستان جوانوں نے بنایا
انکل بولے چلے جا رہے تھے اور میں ہمہ تن گوش تھا۔ نہ جانے کیوں میرے رونگٹے کھڑے ہوتے جا رہے تھے۔ شاید میں بھی پر جوش ہو رہا تھا۔ پاکستان کی کہانی سناتے جیسے میرے والد کی بوڑھی آنکھوں میں چمک آ جاتی تھی ویسی ہی چمک مجھے انکل کی آنکھوں میں بھی نظر آ رہی تھی۔
یقین کی داستان
“Yar Pakistan was created by young people.” جلوس نکالے، نعرے لگائے، لاٹھیاں کھائیں، آنسو گیس کی چبھن برداشت کی لیکن نہ ہارے، نہ ڈرے، نہ پیچھے ہٹے۔ مسلم لیگ اور قائد کا پیغام گھر گھر پہنچا دیا۔ ہم الیکشن کے لیے لاہور کے مضافات میں نکل جاتے تھے۔ ریاض شاہد بڑے خوبصورت انداز میں مسلمانوں میں جذبہ بیدار کرتا تھا۔ نتیجہ ہم نے ان انتخابات میں ناقابل یقین کارکردگی دکھائی۔ مسلمانوں کی ساری ہی سیٹیں مسلم لیگ جیت گئی۔ یہ تھی قائد اعظم کی اپنے مقصد سے سچائی۔ ان کی قیادت پر ہمارا ہی نہیں پوری مسلم قوم کا یقین محکم تھا۔
مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا کردار
بیٹا! روزانہ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن لاہور سے جلوس نکالتی تھی۔ اسلامیہ کالج تحریک کا گڑھ تھا۔ سبھی یہاں جمع ہوتے۔ جلوس برآمد ہوتا۔ برانڈرتھ روڈ سے ہوتا موچی دروازے (سرکلر روڈ) پہنچتا، وہاں سے بھاٹی سے گرزتا سنٹرل ماڈل سکول، وہاں سے سیکرٹریٹ سے ایم اے او کالج، نابھہ روڈ سے ہوتا مال روڈ آتا پھر ریگل چوک سے چیئرنگ کراس کی طرف بڑھتا تو لاٹھی چارج سے لے کر آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ منزل ہماری گورنر ہاؤس ہوتی تھی۔
پولیس کے حملے کا سامنا
پولیس میں جو مسلمان سپاہی تھے وہ لاٹھی زمین پر مارتے اور کہتے “دوڑ جاؤ”۔ آنسو گیس سے بچنے کے لیے ہمیں بتایا گیا تھا کہ رومال پانی میں بھگو کر آنکھوں پر رکھنے سے آنسو گیس کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ ہم لارنس گارڈن گھس جاتے، کسی چھوٹے سے گملے میں پانی بھر کر رومال گیلا کرتے، آنکھوں پر لگاتے، یہ نعرہ لگاتے اور گورنر ہاؤس پہنچنے کی کوشش کرتے۔ “بن کر رہے گا پاکستان، لے کر رہیں گے پاکستان” یہاں گرفتار کر لئے جاتے۔
گرفتاریوں کا سفر
سردیوں کے دن تھے۔ پولیس وین میں بٹھا کر کالا کاچھا لے جاتی۔ رات کے ۹/۰۱ بجے چھوڑ دیتے۔ کالا لاہور سے ۲۱/۰۱ میل تو ہو گا۔ اس وقت نہ کوئی ٹرانسپورٹ ملتی تھی اور نہ ہی اتنی وسائل تھے کہ کوئی ٹیکسی وغیرہ لے لیتے۔ لہٰذا پیدل واپس گھر پہنچتے تو رات کا ۱/۲ بجا ہوتا تھا۔ اگلے دن پھر یہی روٹین ہوتی۔ تازہ دم گھر سے نکلتے ہمارے فلک شگاف نعرے ہی ہمارا جذبہ تھے۔ ناکامی کا نہ قائد نے سوچا تھا نہ ہم سوچ سکتے تھے۔
پاکستان کے شعبہ جستجو
ہم نے پاکستان کی تحریک میں گہرائی سے شمولیت اختیار کی۔ ابا جی بتایا کرتے تھے؛ “بیٹا پاکستان بننا معجزہ تھا۔ میں نے قائد اعظم کو پبلک میں 2 بار روتے دیکھا۔ ایک جب ان کی بیگم “رتی جناح” کو لحد میں اتارا جا رہا تھا۔ دوسری بار جب قائد اعظم “والٹن ریفیوجی کیمپ” آئے۔ شاید انہیں اتنے بڑے پیمانے پر ہجرت اور ایسی قتل و غارت کا اندازہ نہ تھا اور نہ ہی کسی اور کو ورنہ ضرور اس کا بھی وہ کوئی بندوبست کرتے。” انکل سیلیم شاہ نے بھی اس بات کو ایسے ہی بیان کیا تھا۔
نوٹ
یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔