پاکستان میں مزید آٹھ آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کی منظوری: کیا بجلی کے بلوں میں کمی ہوگی؟
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں بجلی پیدا کرنے والے مزید آٹھ کارخانوں یعنی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں کی نظرثانی کی منظوری دی ہے، جس کے بعد ان کمپنیوں سے بجلی خریدنے کے لیے نئے ٹیرف طے کیے جائیں گے۔
حکومت کی جانب سے جن آٹھ کارخانوں سے معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی، وہ بیگاس یعنی گنے کی پھوک پر چلنے والے کارخانے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سال اکتوبر میں حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا آغاز کیا تھا، جب پہلی بار ملک میں آئی پی پیز کے ساتھ بجلی پیدا کرنے اور خریدنے کے معاہدوں کے سلسلے میں پانچ کمپنیوں کے پرانے معاہدے ختم کر کے ان پر نظرثانی کی منظوری دی گئی تھی۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے اس وقت زیر بحث ہیں جب سابقہ نگران кабина کے وزیر تجارت و داخلہ گوہر اعجاز نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں ان معاہدوں پر کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادائیگی نقد کیے جانے کی پر تنقید کی، جو کئی سو ارب روپے بنتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دو، تین برس میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا، تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کی وجہ سے بجلی صارفین سے زیادہ بل وصول کرنے کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں۔
کِن آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی ہو گی؟
وفاقی کابینہ کی جانب سے جن آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی، ان میں جے ڈی ڈبلیو یونٹ ون، یونٹ رحیم یار خان ملز، چنیوٹ پاور، حمزہ شوگر، المعیز پاور پلانٹ، تھل انڈسٹریز اور چنار انرجی شامل ہیں، جن کے ٹیرف کی ازسر نو جائزے کی منظوری دی گئی۔
وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ منظوری ٹاسک فورس برائے انرجی کی سفارشات پر دی گئی ہے۔
وفاقی کابینہ کے مطابق ان معاہدوں پر نظرثانی سے قومی خزانے کو کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 238 ارب روپے کی سالانہ بچت ہو گی اور صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی واقع ہو گی۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2024 میں حکومت نے جن پانچ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا ان میں حبکو پاور کمپنی، لال پیر پاور کمپنی، روش پاور، صبا پاور پلانٹ اور اٹلس پاور پلانٹ شامل ہیں۔
وفاقی کابینہ کے نئے فیصلے کے مطابق اب ملک میں ایسے آئی پی پیز کی تعداد 13 ہو چکی ہے، جن کے ساتھ حکومت نے بجلی کی خریداری کے لیے از سر نو معاہدے کی منظوری دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاڑہ چنار کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ بدستور منقطع: دو سال بعد سعودی عرب سے پاکستان آیا ہوں مگر اب تک گھر نہیں پہنچ سکا۔
آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں متنازع چیز کیا تھی؟
پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر سیاسی، کاروباری حلقوں اور میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے، جس میں ان معاہدوں کو عام لوگوں اور کاروباری اداروں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
ان معاہدوں کی تفصیلات کے بارے میں پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی توانائی کے شعبے کی ماہر عافیہ ملک نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ان معاہدوں میں حکومت نے ضمانت دی تھی کہ وہ 'ٹیک آر پے' کے تحت بجلی کی قیمت ادا کرے گی یعنی کہ حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے، اس کی ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی۔'
انہوں نے بتایا کہ 'کیونکہ ان پاور پلانٹس کے لیے بیرونی و اندرونی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضہ لیا جاتا ہے، اس لیے کمپنیوں کو اس قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت کی ضمانت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ کمپنیاں حکومت کی جانب سے بجلی خریدنے یا نہ خریدنے دونوں صورتوں میں بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کر سکیں۔'
حکومتی ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں، جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔
عافیہ ملک نے بتایا کہ 'ان آئی پی پیز میں حکومتی آئی پی پیز بھی شامل ہیں، جن میں پانی اور نیوکلیئر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: وراثت، عقل اور فہم کی داستان: تین عبد اللہ اور حیرت انگیز وصیت کا راز
آئی پی پیز کے ساتھ از سر نو معاہدوں پر عملدرآمد کیسے ہو گا؟
عافیہ ملک نے بتایا کہ اکتوبر میں ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا ہے اور جن پانچ کمپنیوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا وہ اب 'ٹیک یا پے' ٹیرف سے 'ٹیک اور پے' ٹیرف پر آچکی ہیں یعنی اب حکومت جو بجلی خریدے گی، اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ان پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا ہے جبکہ ان کی جانب سے سٹاک مارکیٹ میں اپنے شیئر ہولڈرز کو بھی اس بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویسے تو کچھ دوسری کمپنیوں کے ساتھ بھی مذاکرات جاری ہیں، تاہم ابھی تک صرف 13 کے ساتھ یہ معاہدے ہوئے ہیں جن میں اکتوبر میں ہونے والے پانچ معاہدے رہے اور اب دسمبر کے مہینے میں تازہ ترین پیشرفت میں بیگاس پر چلنے والے آٹھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے شامل ہیں۔
شعبہ توانائی کے تجزیہ کار سمیع اللہ طارق نے اس حوالے سے بتایا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اب ان معاہدوں کو نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی کو بھیجا جائے گا جو ان کے لیے نئے بجلی کے ٹیرف بنائے گا، اور اس کی منظوری سے ان کمپنیوں کے لیے نئے پاور ٹیرف کا اطلاق ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں سموگ، قائداعظم ٹرافی کے میچز دیگر شہروں میں منتقل
کیا نئے معاہدوں سے بجلی کے بلوں میں کمی ہو گی؟
حکومت کی جانب سے جب اکتوبر 2024 میں پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی تو اس سے بجلی صارفین کے بلوں میں کوئی قابل ذکر کمی واقع نہیں ہوئی، کیونکہ ان معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد صرف ستر پیسے فی یونٹ کمی کا تخمینہ سامنے آیا تھا۔
اب آٹھ مزید آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد کیا صارفین کے بجلی بل میں کوئی کمی ہو پائے گی؟
اس بارے میں توانائی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیگاس پر چلنے والے آئی پی پیز کا بجلی کی پیداوار میں معمولی حصہ ہے، اس لیے ان معاہدوں سے بجلی کے بل میں نہ ہونے کے برابر کمی واقع ہو گی۔
بیگاس پر چلنے والے جن آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی ہے، ان کی سرکاری ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کے مطابق مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 259 میگاواٹ ہے، جو پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداواری صلاحیت 42000 میگاواٹ میں سے بہت کم ہے، جس میں سے صرف 25000 میگاواٹ پیدا کی جاتی ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ میں توانائی کے شعبے کی ماہر عافیہ ملک نے Uses in Urdu کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی کیونکہ بیگاس سے چلنے والے ان کارخانوں کا بجلی کی مجموعی پیداوار میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں اور اب آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد اگر مجموعی کمی لی جائے تو وہ صرف ایک روپیہ فی یونٹ کے قریب ہے۔
کیپسٹی پیمنٹ کا مسئلہ کیا ہے؟
کپیسیٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے، تاکہ صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت میں مہیا کی جا سکے۔ لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں، تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے کورآرڈینیٹر رانا احسان افضل کے مطابق 'جب معاہدے ہوئے تھے تو ان پلانٹس نے جو رقم خرچ کی تو اس کی واپس ادائیگی کے 'ٹیک یا پے' کے معاہدے کیے گئے تھے کہ بجلی کی خریداری یا نہ خریدنے کی صورت میں ادائیگی کرنی ہو گی، جو کیپسٹی پیمنٹ ہوتی ہے۔ تاہم اب معاہدوں کے خاتمے کے بعد 'ٹیک اور پے' یعنی 'بجلی خریدو اور ادائیگی کرو' والی صورتحال ہو گی۔
حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے کی پیشرفت اور ان کے خاتمے کی وجوہات کے بارے میں عافیہ ملک نے بتایا کہ سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز کی جانب سے اس مسئلے کو ایکس پر لانے کے بعد اس پر بہت زیادہ شور مچ گیا تھا اور حکومت بھی دباؤ کا شکار ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس تنقید کو کم کرنے کے لیے فیس سیونگ کے لیے یہ اقدام اٹھایا، تاہم انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت اور صارفین کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔