تنقید کے باوجود کھیلوں میں سعودی عرب کا بڑھتا اثر و رسوخ: 2034 کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی میں کامیابی کے عوامل کیا ہیں؟
فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے تصدیق کر دی ہے کہ سنہ 2034 کا فٹبال ورلڈ کپ سعودی عرب میں منعقد ہوگا۔
فیفا کی جانب سے 2034 کے عالمی کپ کی میزبانی کے لئے سعودی عرب کی منظوری شاید اس تنظیم کی جانب سے کی جانے والی سب سے متنازع فیصلوں میں سے ایک ہے، خاص طور پر انسانی حقوق کے حوالے سے سوالات کی بنا پر۔
اگرچہ بہت سے ناقدین اس فیصلے سے خائف ہیں، مگر سعودی عرب میں فٹبال میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور اثرورسوخ کی وجہ سے لوگوں کو اس فیصلے پر حیرانی نہیں ہوگی۔
کیا یہ عالمی ٹورنامنٹ سعودی عرب کی بین الاقوامی شہرت کو بدل دے گا یا یہاں معاشرتی تبدیلی کی راہ ہموار کرے گا؟ اور یہ فیصلہ فیفا اور فٹ بال کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟
تاجپوشی کیوں، مقابلہ کیوں نہیں؟
سعودی عرب میں فٹبال ورلڈ کپ کی باضابطہ تصدیق پچھلے ایک سال سے ایک رسمی کارروائی لگ رہی تھی۔ اکتوبر 2023 میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ سعودی عرب کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے، کیونکہ آسٹریلیا نے اس مقابلے میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
فیفا نے اپنے عمل کی تیز رفتاری کا دفاع کیا ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ عمل شفافیت اور احتساب سے عاری تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے لئے رستہ صاف ہوا کیونکہ 2030 عالمی ورلڈ کپ تین براعظموں میں تقسیم کر دیا گیا، جس میں سپین، پرتگال اور مراکش شریک میزبان ہیں۔
واضح ہے کہ حالیہ دنوں میں فیفا کے صدر جیانی انفینٹینو اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تعلقات بنے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں کلب ورلڈ کپ منعقد ہوا، اور سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی 'آرامکو' کے ساتھ فیفا کا اہم معاہدہ ہوا ہے۔
یہ بھی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ سعودی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کی جانب سے سٹریمنگ پلیٹ فارم 'ڈی ای زیڈ این' میں بڑی سرمایہ کاری کی جائے گی، جہاں اگلے موسم گرما کے دوران سعودی عرب میں ہونے والے فٹبال مقابلے دکھائے جائیں گے۔
گذشتہ ماہ جب فیفا نے تجزیاتی رپورٹ شائع کی، جسے انفینٹینو کے نائب سیکریٹری جنرل میٹیاس گرافسٹورم نے تحریر کیا تھا، تو اس میں سعودی عرب کی بولی کو پانچ میں سے 4.2 نمبر دیے گئے، لیکن کوئی وضاحت نہیں کی گئی، جس سے یہ واضح تھا کہ سعودی عرب ہی میزبانی حاصل کرے گا۔
اس کے ساتھ ہی روایتی ووٹنگ کے طریقے کے بجائے فیفا کانگریس میں تصدیق کا عمل بھی سوالات اٹھاتا ہے، کیونکہ اس طرح کسی فیفا رکن ملک کے لیے اپنا اعتراض ظاہر کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ تالیاں بجانے میں شریک نہ ہو۔
فیفا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ طریقہ ماضی سے بہتر ہے جب مختلف ممالک کے درمیان طویل مقابلہ ہوتا تھا، جس میں بدعنوانی کے عناصر شامل ہونے کا امکان رہتا تھا۔ فیفا یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے فٹبال ایونٹ کو نئے خطوں میں لے جانا ان کی ذمے داری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بابراعظم آئندہ ٹی ٹوینٹی ٹیم میں شامل ہوں گے؟ ہیڈ کوچ نے واضح اعلان کر دیا
باقی ممالک کا کیا کہنا ہے؟
ناروے کی فٹبال فیڈریشن نے کہا ہے کہ 'بولی کا عمل فیفا کی اپنی اصلاحات کے خلاف ہے اور عالمی تنظیم پر اعتماد کو چیلنج کرتا ہے۔'
جرمنی کی تنظیم نے کہا ہے کہ وہ 'تنقید کو سنجیدگی سے لیتی ہے لیکن فیفا سے مل کر آنے والے برسوں میں صورت حال بہتر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔'
برطانوی تنظیم نے اب تک اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے تاہم چند سینیئر حکام نے Uses in Urdu کو بتایا ہے کہ انسانی حقوق سے جڑے خدشات کے باوجود انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ 'اگر وہ سعودی عرب کی حمایت نہیں کریں گے لیکن ایونٹ میں شرکت کریں گے تو ان پر دوغلے پن کا الزام لگے گا۔'
زیادہ تر تنقید کھیل کے میدانوں سے باہر سے ہو رہی ہے۔ مارچ میں گارڈین اخبار کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسے سعودی عرب میں بڑی تعداد میں بنگالی تارکین وطن کی ناقابل فہم اموات کے شواہد ملے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے قواعد و ضوابط کا دفاع کیا تاہم فیفا پر دباؤ بڑھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی دینے سے پہلے اصلاحات کے حوالے سے چند شرائط مانے۔
اکتوبر میں سعودی عرب کی جانب سے بولی کے ساتھ ایک رپورٹ جمع کرائی گئی جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی کہ اس میں تارکین وطن کی اموات کے الزامات کو سراسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ گذشتہ ماہ ایمنسٹی نے فیفا پر زور دیا تھا کہ 'اگر سعودی عرب میں ایونٹ کروایا گیا تو شائقین کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوگا، شہریوں کو جبری طریقے سے بے دخل کیا جائے گا، تارکین وطن مزدوروں کا استحصال ہوگا اور بہت سے جان سے گزر جائیں گے۔'
فٹبال میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بھی مخالفت ہو رہی ہے۔ اکتوبر میں سو سے زیادہ پروفیشنل خواتین فٹبال کھلاڑیوں نے فیفا کو ایک کھلا خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ سعودی آرامکو کو سپانسر کے طور پر ہٹایا جائے کیوں کہ 'یہ پیٹ میں مکے جیسا ہے۔'
یہ خدشات بھی ہیں کہ بہت سے کھلاڑی اس خوف سے کُھل کر بات نہیں کر رہے کیوں کہ سعودی پرو لیگ میں ان کی شمولیت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ایسے ماحول میں جب حکومتیں سعودی عرب سے تجارتی معاہدے کر رہی ہیں ان کے لیے موقف اپنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ رواں ہفتے برطانوی وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد معاشی تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ایرانی کیفے کیوں بند ہو رہے ہیں؟
سعودی عرب میں فٹبال ورلڈ کپ کیسا ہو گا؟
سعودی عرب کی فٹبال فیڈریشن کے مطابق یہ 'انتہائی غیرمعمولی' ہو گا۔ اس کی بولی میں لکھا گیا ہے کہ ورلڈ کپ مقابلوں کے لیے 15 سٹیڈیم تعمیر کیے جائیں گے جن میں سے تین کی تعمیر جاری ہے اور آٹھ پر کام شروع ہونا باقی ہے۔ یہ پانچ شہروں میں منعقد ہو گا جن میں سے ایک نیوم نام کا شہر ہے جو ابھی تک تعمیر ہی نہیں ہو سکا ہے۔
یہ ورلڈ کپ یقینی طور پر موسم سرما میں منعقد ہو گا۔ فیفا نے کہا ہے کہ موسم گرما میں 40 ڈگری سے بھی زیادہ تک درجہ حرارت کی وجہ سے ایونٹ منعقد ہونے کے وقت سے خطرات جڑے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مذہبی وجوہات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ ایونٹ جنوری کے آغاز میں منعقد ہو سکتا ہے تاکہ ماہ رمضان سے تاریخیں متصادم نہ ہوں۔
پی اے نیوز ایجنسی کے مطابق برطانوی اور دیگر یورپی لیگز موسم سرما میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی مخالفت کریں گی۔ اگرچہ کئی لیگز نے 2022 میں قطر ٹورنامنٹ سے قبل اپنے سیزن روک دیے تھے، ورلڈ کپ میں وسعت کے باعث 48 ٹیموں کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ فٹبال شیڈول زیادہ متاثر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کو بابا صدیقی کی طرح قتل کرنے کی دھمکی
سعودی عرب کے اثرورسوخ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے
بہت سے لوگوں کے لیے سعودی عرب میں ورلڈ کپ کا انعقاد اس طاقت کا اظہار ہے جو یہ ملک مختلف کھیلوں میں رکھتا ہے۔
سعودی عرب نے 2021 سے مختلف کھیلوں کے ایونٹ کروانے کے لیے اربوں ڈالر سرمایہ کاری کی ہے جب شہزادہ محمد بن سلمان نے ’وژن 2030‘ کے تحت ملک کی معیشت کو جدت دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ فارمولا ون، ہسپانوی اور اطالوی فٹبال کپ کے فائنل، کلب ورلڈ کپ سمیت باکسنگ، گالف اور گھڑسواری کے مختلف ایونٹ منعقد کروائے جا چکے ہیں۔
سعودی عرب کے پبلک انوسٹمنٹ فنڈ نے لیو گالف سیریز کا بھی آغاز کیا اور چار سعودی پرو لیگ فٹبال کلبز کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کا نیو کاسل یونائیٹڈ کلب بھی خرید لیا۔
ڈینش تنظیم ’پلے دی گیم‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے 900 سے زیادہ سپانسر شپ معاہدے کر رکھے ہیں اور فٹبال کی تنظیموں سے درجنوں باضابطہ معاہدے کر رکھے ہیں۔
لیکن فٹبال ورلڈ کپ کا انعقاد سعودی عرب کے کھیلوں کے اس انقلاب کو بالکل نئی سطح پر لے جائے گا جہاں مستقبل میں اس کے لیے اولمپکس کی میزبانی کی پیشکش کرنا بھی ناممکن نہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: ساتھی اداکارہ کو جنسی ہراساں کرنے کے الزام میں معروف بھارتی اداکار گرفتار
کیا یہ سپورٹس واشنگ ہے؟
نقادوں کا ماننا ہے کہ فیفا کی تاریخ میں سپورٹس واشنگ کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جس میں ورلڈ کپ کی مدد سے ایک ایسے ملک کی تصویر کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت خواتین کے حقوق، ہم جنس پرستی، آزادی اظہار رائے سمیت سزائے موت کی وجہ سے بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
اگرچہ اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں میں اہم اصلاحات ہوئی ہیں، جیسا کہ خواتین کے حقوق پر، تاہم ان کے مطابق ساتھ ہی ساتھ حقوق سلب کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سعودی عرب 2023 میں سزائے موت پر عملدرآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک تھا۔ اس سال 300 لوگوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر خواتین کو مرد رشتہ دار کے بغیر باہر سفر نہ کرنے کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی مناہل ال اوتیبی کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
’ریپریو‘ نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ ’دنیا کی ایک بربریت پسند آمرانہ حکومت ایک جھوٹی تصویر دکھانے کے لیے بہت بڑی رقم خرچ کر رہی ہے تاکہ ریاستی تشدد سے توجہ ہٹائی جا سکے۔‘
تنظیم کے مطابق ’سزائے موت پانے والے لوگوں میں احتجاج کرنے والے شامل ہیں اور کچھ ایسے بھی جن کو بہت کم مقدار میں کسی نشہ آور شے کے ساتھ پکڑا گیا۔‘
تنظیم کا کہنا ہے کہ 2034 میں ’سعودی عرب کا سفر کرنے کے خواہش مند شائقین کو علم ہونا چاہیے کہ اس ملک میں ایسی آزادی، جسے جمہوری ممالک میں عام سمجھا جاتا ہے، کے اظہار پر موت ہو سکتی ہے۔‘
دوسری جانب سعودی حکام کا کہنا ہے کہ وہ معیشت اور سیاحت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جدت اور اصلاحات کا دروازہ کھلے۔ گذشتہ سال کھیلوں کے وزیر شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل نے ورلڈ کپ کی میزبانی کا دفاع کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ ’سپورٹس واشنگ کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے 85 سے زیادہ عالمی ایونٹ منعقد کروائے، ہم دنیا کو کھیلوں کی مدد سے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں، ہر ملک میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے، کوئی بھی بہترین نہیں ہوتا۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ ایونٹ ہمیں سب کے لیے بہتر مستقبل اور اصلاح میں مدد کرتے ہیں۔‘
خواتین کو سعودی عرب میں 2018 میں میچ سٹیڈیم میں دیکھنے کی اجازت ملی تاہم اس کے بعد خواتین کی پروفیشنل فٹبال لیگ اور قومی ٹیم بن چکے ہیں اور 70 ہزار سے زیادہ لڑکیاں فٹبال کھیل رہی ہیں۔
تاہم گذشتہ سال برطانیہ کے ہم جنس پرست مرد فٹبالر جیک ڈینیئلز نے Uses in Urdu کو بتایا تھا کہ وہ سعودی عرب میں ورلڈ کپ میں ’خود کو محفوظ‘ نہیں سمجھیں گے۔ جب میں نے سوال کیا کہ وہ ایسے ہم جنس پرست شائقین سے کیا کہیں گے جو اپنی حفاظت کے بارے میں فکرمند ہیں، تو شہزادہ عبدالعزیز نے جواب دیا کہ ’سب کو خوش آمدید ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: خالد حسین چودھری کی والدہ کے انتقال پر پاکستان جرنلسٹس فورم کے وفد کی تعزیت، مرحومہ کی مغفرت کے لیے دعا کی گئی
کیا سعودی عرب میں ورلڈ کپ تبدیلی لائے گا؟
سنہ 2010 میں جب قطر کو میزبانی ملی تھی تو فیفا کی قیادت چونک گئی تھی۔ اس بار فیفا صدر سعودی عرب میں ورلڈ کپ کے حامی ہیں۔
قطر کی طرح سعودی عرب میں بھی جنوبی ایشیا کے تارکین وطن ہی کام کریں گے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ غیر ملکی آباد ہیں اور تعمیراتی کام کی وجہ سے خدشات بڑھے ہیں۔
فیفا کی اپنی رپورٹ کے مطابق قطر میں 2010 سے 2022 تک ’ورلڈ کپ سے جڑے کئی مزدوروں کے انسانی حقوق متاثر ہوئے اور اموات کے علاوہ بیماریاں، وقت پر تنخواہ نہ ملنا اور قرض جیسی شکایت سامنے آئیں۔‘
قطر میں ورلڈ کپ پر میڈیا کی نظر کی وجہ سے اصلاحات لائی گئیں اگرچہ ان پر عملدرآمد کے بارے میں اب بھی سوالات باقی ہیں۔
گذشتہ سال شہزادہ عبدالعزیز نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ’سعودی عرب میں قطر جیسا معاملہ نہیں ہو گا۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس دس سال ہیں، ہم بہت سے مقامات پر کام شروع کر چکے ہیں تو ہم درست طریقے سے کام کرنے کے لیے بہت وقت رکھتے ہیں۔‘
سعودی عرب کی تجزیاتی رپورٹ میں فیفا نے کہا ہے کہ ’چند مقامات پر قانونی اصلاحات درکار ہیں اور منتظم عملدرآمد جس کے بغیر حالات زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔‘
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ’فیفا کی رپورٹ انسانی حقوق کے ریکارڈ کی حیران کن پردہ پوشی ہے۔‘ عالمی تنظیم کے مطابق ’ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے ورنہ 2034 ورلڈ کپ استحصال، امتیازی سلوک اور جبر کی وجہ سے داغدار ہو جائے گا۔‘
فیفا کا فیصلہ کھیلوں کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟
سعودی عرب میں ورلڈ کپ کا انعقاد کھیلوں کی دنیا میں بدلتی ہوئی طاقت اور اس کا رُخ مشرق وسطی کی جانب ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک یہ سوچا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ چھوٹا سا قطر اور اس کا ہمسایہ سعودی عرب صرف 12 سال کے عرصہ میں ورلڈ کپ کا انعقاد کروائیں گے۔ تاہم ان ممالک کی دولت اور کھیلوں کی تنظیموں کی معاشی ترقی کی خواہش نے اسے ممکن بنا دیا۔
سعودی عرب کہہ سکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی کھیلوں کی تقریب منعقد کروانے والا وہ واحد متنازع ملک نہیں۔ دو دہائیوں کے دوران روس میں ورلڈ کپ کے علاوہ اولمپکس بھی ہو چکے ہیں۔ چین نے سمر اور ونٹر اولمپکس کروائے ہیں۔
ہم جنس پرستانہ تعلقات مراکش میں بھی غیر قانونی ہیں جو 2030 ورلڈ کپ کا شریک میزبان ہے اور قطر میں بھی ایسا ہی قانون تھا۔
تاہم ایک تنقید یہ ہو رہی ہے کہ فٹبال کی دنیا میں انسانی حقوق کی علم برداری کو سعودی عرب میں ایونٹ کے انعقاد سے نقصان پہنچے گا۔ اب فیفا اور سعودی عرب کے پاس ایک دہائی ہے کہ یہ ثابت کر سکیں کہ اگلا میگا ایونٹ داغدار نہ ہو۔