بیوی کے ریپ کے مقدمے میں 50 ملزمان کی پیشی: ‘ہم روزانہ جنسی تعلق رکھتے تھے، میرے ساتھی کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟’
انتباہ: اس کہانی کی کچھ تفصیلات آپ کو پریشان کرسکتی ہیں۔
یہ ریپ کرنے والوں میں نوجوان، بوڑھے، توانا، دبلے پتلے، سیاہ فام، گورے اور ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔
ان میں سے کوئی فائر فائٹر تھا، کوئی ڈرائیور، کوئی فوجی تو کوئی سکیورٹی گارڈ، یہاں تک کہ ان میں صحافی اور ڈی جے بھی شامل تھے۔
یہ وہ 50 افراد ہیں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے فرانس سے تعلق رکھنے والے 72 سالہ ڈومینیک پیلکوٹ کے کہنے پر ان کی بیوی جزیل پیلکوٹ کا ریپ کیا۔
ڈومینیک پر الزام ہے کہ وہ ایک دہائی تک اپنی بیوی کو نیند کی گولیاں دے کر بے ہوش کرتے رہے اور ان کا مختلف مردوں سے ریپ کروایا۔
چونکہ یہ افراد فرانسیسی معاشرے کے ایک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اس لیے انھیں عام آدمی (Mr Everyman) کا نام دیا گیا۔
یہ سماعت رواں سال ستمبر سے جاری ہے اور اگلے ہفتے ملزمان پر دائر مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ اگر عدالت نے انھیں مجرم قرار دیا تو وہ مجموعی طور پر 600 سال سے زائد قید کی سزا کاٹیں گے۔
مقدمے کی کارروائی کے دوران ان میں سے چند ملزمان نے خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم بیشتر نے ججز کے سامنے نگاہیں اٹھانے تک کی جرات نہیں کی اور شاذ و نادر ہی اپنے وکلا کی طرف دیکھا۔
ان میں سے زیادہ تر ملزمان ڈومینیک پیلکوٹ کے گاؤں مازان کے آس پاس 50 کلومیٹر کے اندر کے ہی رہائشی ہیں۔
دفاع کے بعض وکلا نے ان کے عام انسان ہونے کو ایک اہم دلیل کے طور پر پیش کیا۔ تین ملزمان کی وکالت کرنے والے انٹوان منیئر کا کہنا ہے کہ ’عام لوگ ایسے انتہائی غیر معمولی کام کر سکتے ہیں۔‘
Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے انٹوان منیئر نے بتایا کہ ’میرا خیال ہے کہ تقریباً ہر کوئی کسی صورتحال میں کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کے جرم کی نوعیت اتنی ہی سنگین ہو۔‘
’میرے جسم نے ریپ کیا لیکن دماغ نے نہیں‘
استغاثہ نے سزا کی درخواستوں میں جن وجوہات کو بنیاد بنایا، ان میں زور دیا گیا کہ ملزمان کتنی بار ڈومینیک پیلکوٹ کے گھر گئے، آیا انھوں نے ڈومینیک کی اہلیہ جزیل پیلکوٹ کو جنسی طور پر چھوا یا ان کا ریپ کیا۔
ملزمان میں سے ایک 69 سالہ جوزف سی ہیں جو ایک ریٹائرڈ سپورٹس کوچ اور محبت کرنے والے دادا ہیں تاہم اگر ان پر جرم ثابت ہوا تو انھیں ریپ کے الزام میں چار سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ استغاثہ کی سب سے کم سزا کی درخواست ہے۔
دوسری طرف 63 سالہ رومن وی کو 18 سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کے باوجود جزیل پیلکوٹ کے ساتھ چھ بار ریپ کے مرتکب قرار دیے گئے ہیں اور انھوں نے ایسا بغیر کسی احتیاط کے کیا تاہم ان کے وکیل کا دعوی ہے کہ وہ کئی سال سے علاج کروا رہے تھے اور وائرس منتقل کرنے کے قابل نہیں تھے۔
اس مقدمے میں معمول سے ہٹ کر شواہد دستیاب ہیں کیونکہ ریپ کی ویڈیوز کی ریکارڈنگ تقریباً ایک دہائی تک ڈومینیک نے خود کی تھی۔
ڈومینیک نے عدالت کے سامنے تمام الزامات قبول کر لیے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ ملوث تمام 50 افراد بھی قصوروار ہیں۔
ویڈیو شواہد کی موجودگی میں کوئی بھی ملزم ڈومینیک پیلکوٹ کے گھر جانے سے انکار نہیں کر سکتا تاہم ان میں سے اکثریت نے پرتشدد ریپ کے سنگین الزامات کو مسترد کیا، جو ان کے لیے سخت سزاؤں کا باعث بن سکتا ہے۔
فرانسیسی قانون کے مطابق ریپ کسی بھی ایسے جنسی عمل کو کہتے ہیں جو تشدد، جبر، دھمکی یا دھوکہ دہی کے ذریعے کیا جائے اور اس میں رضامندی شامل نہ ہو۔
ملزمان نے دلیل دی کہ وہ قصوروار نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ جزیل پیلکوٹ رضامندی دینے کی پوزیشن میں نہیں۔
ایک وکیل دفاع نے کہا کہ ’کوئی جرم بغیر مجرمانہ نیت کے نہیں ہو سکتا۔‘
رضاکار فائر فائٹر کرسچین ایل نے کہا کہ ’میرے جسم نے اس کا ریپ کیا لیکن میرے دماغ نے نہیں۔‘ یہ اس پیچیدہ دلیل کی مثال ہے جو ان افراد نے دی تھی۔
63 سالہ جین پیری ایم ان 50 ملزمان میں سے وہ واحد شخص ہیں جن پر جزیل پیلکوٹ کا ریپ کرنے کا الزام تو نہیں تاہم انھیں ڈومینیک کا ’شاگرد‘ کہا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ بدسلوکی کے لیے انھیں نشہ آور ادویات سے بے ہوش کرنے کا طریقہ ڈومینیک سے سیکھنے اور پھر پانچ سال تک اپنی بیوی کے ساتھ ایسا کرنے کا اعتراف کیا۔
اپنے اس جرم کا مورد الزام انھوں نے ڈومینک پیلیکوٹ کو ٹھرایا جو بقول ان کے انھیں ایک ’عزیز‘ کی طرح تسلی دیتے رہے۔ استغاثہ نے کرسچین ایل کے لیے 17 سال قید کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فضل الرحمان کی مدارس رجسٹریشن کی تجاویز پر مثبت پیشرفت، وزیراعظم کی معاملات جلد حل کرنے کی ہدایت
دھوکے اور چالاکی کا شکار
54 سالہ احمد 30 سال سے اپنی بچپن کی محبت کے ساتھ شادی شدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کا مقصد کسی کے ساتھ زیادتی کرنا ہوتا تو وہ 60 سال کی خاتون کو کبھی نہ چنتے۔
40 سالہ ریڈوان اے بے روزگار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کا ارادہ جزیل کے ساتھ ریپ کرنے کا ہوتا تو وہ کبھی ان کے شوہر کو ویڈیوز بنانے کی اجازت نہ دیتے۔
کچھ ملزمان کا کہنا ہے کہ ڈومینیک پیلکوٹ نے انھیں دھمکایا۔ ایک وکیل نے کہا کہ ڈومینیک پیلکوٹ انتہائی گھٹیا کردار کے مالک تھے۔
نرس ریڈوان ای نے بھرائی ہوئی آواز میں عدالت کو بتایا کہ وہ پیلکوٹ سے اتنا خوفزدہ تھے کہ وہ بیڈروم سے باہر جانے کی ہمت نہیں کر سکے۔ انھوں نے ججوں کو بتایا کہ 'شاید آپ ویڈیوز سے یہ نہ سمجھ سکیں لیکن میں واقعی ڈرا ہوا تھا۔'
کچھ ملزمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں ایسے مشروبات پیش کیے گئے تھے جن میں نشہ آور دوا ملائی گئی تھی اور اس لیے انھیں اس بارے میں کچھ بھی یاد نہیں تاہم ڈومینیک پیلکوٹ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
اکثریت نے الزام لگایا کہ وہ ڈومینیک پیلکوٹ کی چالاکی اور دھوکے کا شکار ہوئے ہیں جس نے انھیں یہ یقین دلایا تھا کہ وہ ایک جوڑے کی رضامندی کے ساتھ اس جنسی کھیل میں حصہ لے رہے ہیں۔
جوزف سی کے وکیل کرسٹوف برُوشی نے Uses in Urdu کو بتایا کہ انھیں دھوکے اور فراڈ سے بھرپور صورتحال میں پھنسایا گیا۔
لیکن ڈومینیک پیلکوٹ ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ انھوں نے تمام افراد کو واضح طور پر بتایا تھا کہ ان کی بیوی اس منصوبے سے بے خبر ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ ان افراد کو ہدایات دیتے تھے کہ وہ جزیل کو جگانے سے گریز کریں اور اپنی موجودگی کا کوئی نشان وہاں نہ چھوڑیں۔ مثلاً ان سے کہا گیا کہ وہ جزیل کو چھونے سے پہلے اپنے ہاتھ گرم کریں یا خوشبو اور سگریٹ کی بو دور کر کے آئیں۔
انھوں نے کہا کہ 'وہ لوگ سب کچھ جانتے تھے اور اس سے وہ انکار نہیں کر سکتے۔'
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جنگ فوری طور پر بند ہونی چاہئے: وزیر اعظم
'کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہو گا، وہ ڈپریشن کا شکار ہو گا'
رواں سال ستمبر سے لے کر اب تک آوینیو کی عدالت میں یہ 50 ملزمان باری باری پیش ہو رہے ہیں۔
عام طور پر ریپ کے مقدمات میں ملزمان کی شخصیت اور کردار کی چھان بین میں کئی روز لگ جاتے ہیں تاہم اس مقدمے میں ملزمان کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث زیادہ تر کی چھان بین گھنٹوں میں مکمل کی گئی۔ ملزمان کی زندگیوں کا جائزہ ریکارڈ وقت میں لیا گیا۔
کچھ نے عدالتی کارروائی میں اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور صدمے سے بھری کہانیوں کی ایک طویل فہرست پیش کر دی۔
شعبہ تعمیرات سے وابستہ 43 سالہ سیمونے ایم ایک مزدور ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں 11 سال کی عمر میں ایک فیملی فرینڈ کی جانب سے ریپ کیا گیا۔ اس شخص نے انھیں مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا تھا۔
46 سالہ جین لوک ایل اب چار بچوں کے والد ہیں۔ عدالت کے سامنے اپنے بیان میں انھوں نے بتایا کہ کس طرح وہ اور ان کا خاندان ویتنام سے ایک چھوٹی کشتی پر نکلے اور کئی سال تھائی لینڈ کے پناہ گزین کیمپ میں گزارنے کے بعد فرانس منتقل ہوئے۔
منشیات فروشی اور نابالغ بچے پر جنسی حملے سمیت کئی مجرمانہ ریکارڈ کے حامل 39 سالہ فابین ایس نے عدالت کے روبرو کہا کہ انھیں چھوٹی عمر سے گود لینے والے والدین کی جانب سے بدسلوکی اور مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔
کئی دوسرے ملزمان کی طرح فابین نے اپنے بیان میں کہا کہ جب انھیں عدالتی حکم پر ماہرِ نفسیات کے سیشن میں بھیجا گیا تو ان پر انکشاف ہوا کہ بچپن کے وہ دھندلے اور تکلیف دہ واقعات درحقیقت ریپ تھے۔
کئی ملزمان کی بیویوں، پارٹنرز اور خاندان کے دیگر افراد کو عدالت نے ان کے کردار کی گواہی دینے کے لیے بلایا تو وہ بھی یہ جاننے کی کوشش میں تھے کہ آخر ان کے قریبی مرد اس قسم کی کارروائی میں کیسے ملوث ہو سکتے ہیں۔
ایک خاتون نے کہا ’مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا، یہ بالکل اس کی شخصیت کے برعکس ہے۔ وہ میری زندگی کی خوشی تھا۔‘
فائر فائٹر کرسچین ایل کو بچوں سے بدسلوکی کی تصاویر رکھنے کے جرم میں بھی تحقیقات کا سامنا ہے۔ ان کے بزرگ والد نے عدالت میں گواہی کے دوران کہا کہ ’کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہو گا، وہ یقیناً ڈپریشن کا شکار ہو گا۔‘
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین پی سی بی محسن نقوی ٹیم کی فائٹنگ سپرٹ سے خوش، اہم بیان جاری کر دیا
’ہم روزانہ سیکس کرتے تھے، انھیں کہیں اور جانے کی ضرورت کیوں پڑی‘
54 سالہ تھیری پا کی سابقہ اہلیہ کورین نے کہا کہ وہ ہمیشہ ان کے بچوں کے لیے ’مہربان اور باوقار‘ ثابت ہوئے ہیں اور اسی لیے انھوں نے ان کے ساتھ صلح کا دروازہ کھلا رکھا۔
’جب مجھے بتایا گیا کہ تھیری پر کیا الزام ہے تو میں نے کہا کہ کبھی نہیں، یہ ناممکن ہے۔۔۔ میں سمجھ نہیں سکتی کہ وہ اس میں کیسے ملوث ہوا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے 18 سالہ بیٹے کی موت نے ان کے سابق شوہر کو شدید ڈپریشن کا شکار بنا دیا۔ انھوں نے شراب نوشی شروع کی اور پھر ڈومینیک پیلکوٹ کے جال میں آ گئے۔
گیانا سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نوجوان جوان کی سابقہ گرل فرینڈ نے جذبات سے لبریز آواز میں کہا کہ ’جو بھی ہو، میں ہمیشہ اس کا ساتھ دوں گی۔‘
جون ان تمام ملزمان میں سب سے کم عمر ہیں اور فرانسیسی فوج میں سپاہی رہے ہیں۔ انھوں نے دو بار جزیل پیلکوٹ کے ریپ کے الزام کی تردید کی حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جزیل بے ہوش تھیں تاہم ان کا اصرار رہا کہ وہ لاعلم تھے کہ وہ اس کے لیے راضی نہیں تھیں۔
سامیرا نامی ایک خاتون نے عدالت میں زار و قطار روتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے ساڑھے تین سال سے جواب ڈھونڈ رہی ہیں کہ جیرووم وی چھ بار پیلکوٹس کے پاس کیوں گئے۔
’ہم روزانہ ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرتے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انھیں کسی اور جگہ جانے کی ضرورت کیوں پڑی۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ابھی بھی جیرووم وی کے ساتھ تعلقات میں ہیں۔
جیرووم وی کو جب گرفتار کیا گیا تو وہ اپنی گرفتاری کے وقت ایک سبزی فروش کے پاس کام کر رہے تھے۔
جیرووم وی نے جزیل کے ریپ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ڈومینیک پیلکوٹ کی اہلیہ پر ’مکمل اختیار‘ کا خیال پسند آیا تاہم انھوں نے قبول کیا کہ اس کی وجہ ان کی اپنی ناقابلِ کنٹرول جنسی خواہشات تھیں۔
’انھوں نے پورے ہوش میں میرا ریپ کیا‘
ملزمان کے دفاع میں عدالت میں پیش ہونے والی کئی موجودہ اور سابق پارٹنرز نے اس دوران اس شک کا بھی اظہار کیا کہ کہیں انھیں بھی تو جزیل کی طرح نشہ آور دوائیوں کا نشانہ تو نہیں بنایا گیا۔
ایک خاتون نے کہا کہ انھیں ہمیشہ یہ شک رہے گا کہ جس خیال رکھنے والے اور مہربان شخص کو وہ جانتی تھیں شاید بے خبری میں وہ ان کو بھی نقصان پہنچا چکا ہو۔
مقدمے کے آغاز سے ہی اس ایک کڑی کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جو ان تمام ملزمان کو ایک ہی کام کی جانب راغب کرنے کی وجہ بنی ہو۔
جزیل کے وکلا نے کہا کہ اس ساری کارروائی میں سوائے اس ایک حقیقت کے کوئی محرک مشترک نہیں کہ یہ تمام مرد اپنی مرضی سے پیلکوٹس کے پاس گئے تھے۔
’لیکن ایک اور چیز جو تمام ملزمان میں مشترک رہی وہ یہ کہ انھوں نے پولیس کو اطلاع دینے کا شعوری فیصلہ نہیں کیا۔‘
73 سالہ فائر فائٹر جیکس سی نے کہا کہ انھوں نے اس بارے میں سوچا تھا لیکن ’پھر وقت گزر گیا۔‘ 55 سالہ الیکٹریشن پیٹریس این نے کہا کہ وہ ’پولیس سٹیشن میں پورا دن ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘
مقدمے کی سماعت کے ابتدائی دنوں میں ڈومینیک پیلکوٹ کی اہلیہ جزیل سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں یہ سوچنا جائز ہے کہ ان کے شوہر نے مردوں کو دھوکے میں رکھا۔
انھوں نے اپنا سر ہلایا اور کہا کہ ’انھوں نے میرے سر پر بندوق رکھ کر نہیں بلکہ پورے ہوش میں میرا ریپ کیا۔‘
انھوں نے سوال کیا کہ ’آخر وہ پولیس کے پاس کیوں نہیں گئے؟ یہاں تک کہ ایک گمنام فون کال بھی میری جان بچا سکتی تھی۔‘
’لیکن ان میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ ان میں سے ایک نے بھی نہیں۔‘