پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جس کے اندر اختلاف رائے پایا جانا کوئی نئی بات نہیں:شبلی فراز
سینیٹر شبلی فراز کا بیان
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے جس میں اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے اندر اختلافات کے بارے میں باتیں میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کی جارہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مشن امپاسیبل 8 نے ریلیز سے قبل ہی 12 ملین ڈالرز کا بزنس کرلیا، مگر کیسے؟
پی ٹی آئی کی صورتحال
شبلی فراز نے کہا کہ اگر بانی پی ٹی آئی نے کوئی ڈیل کرنی ہوتی تو وہ پہلے کر لیتے۔ یہ بات صرف پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ ملک کی بھی ہے کہ اس وقت حالات کس طرح کے ہیں۔ ملک کو قرض پر چلایا جا رہا ہے جبکہ حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت رواں سال گندم کی خریداری کرے گی یا نہیں؟ فیصلہ ہوگیا
اعظم سواتی کے بیان پر ردعمل
نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق، سینیٹر شبلی فراز نے آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اعظم سواتی کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں دے سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کا جواب دینے کے لیے پارٹی کا پلیٹ فارم موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں بارشیں، سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ، دریاؤں میں طغیانی برقرار
پی ٹی آئی کی ساکھ
انھوں نے کہا کہ جب سب کا محور ایک ہی بانی ہو تو پارٹی تتر بتر نہیں ہو سکتی۔ پی ٹی آئی میں سیاست کرنے والے سب لوگ اس جماعت کی وجہ سے ہیں، اور بڑے لوگوں کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آٹو شو کے بعد لاہور میں پاک ویلز کار میلے کا اعلان
ملک کی بدامنی اور مہنگائی
سینیٹر شبلی فراز نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں بدامنی اور مہنگائی عروج پر ہے۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام کی سپورٹ ضروری ہے۔ ملک کے چار اکائیوں میں سے تین اکائیوں میں بے یقینی کی صورتحال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: راجہ فاروق حیدر کی سرکاری چینل پر پریس کانفرنس کے دوران سگریٹ پینے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
ذاتی مفادات کے فیصلے
انہوں نے کہا کہ ہر ملک اپنے مفادات کے لئے فیصلے کرتا ہے، مگر پاکستان میں فیصلے ذاتی مفادات کے لئے کیے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور عدالتوں کو ایگزیکٹو کے نیچے کر دیا گیا ہے۔
قرضدار ملک کی خارجہ پالیسی
سینیٹر شبلی فراز نے یہ بھی کہا کہ ملک کو قرض پر چلایا جا رہا ہے، اور حکومت کو عوام کی سپورٹ حاصل نہیں ہے۔ ایک قرضدار ملک اپنی خارجہ پالیسی کیسے بنا سکتا ہے جب کہ محدود آپشنز موجود ہیں؟








