پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جس کے اندر اختلاف رائے پایا جانا کوئی نئی بات نہیں:شبلی فراز

سینیٹر شبلی فراز کا بیان
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے جس میں اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے اندر اختلافات کے بارے میں باتیں میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کی جارہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 180 یوم میں 10 ہزار مریضوں کو فری میڈیسن کی فراہمی کا ریکارڈ قائم
پی ٹی آئی کی صورتحال
شبلی فراز نے کہا کہ اگر بانی پی ٹی آئی نے کوئی ڈیل کرنی ہوتی تو وہ پہلے کر لیتے۔ یہ بات صرف پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ ملک کی بھی ہے کہ اس وقت حالات کس طرح کے ہیں۔ ملک کو قرض پر چلایا جا رہا ہے جبکہ حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گینگ آف کالا چورز کے پارٹنر کارکنوں میں “مظلوم بچہ” بننے کی ناکام کوشش: عظمیٰ بخاری
اعظم سواتی کے بیان پر ردعمل
نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق، سینیٹر شبلی فراز نے آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اعظم سواتی کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں دے سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کا جواب دینے کے لیے پارٹی کا پلیٹ فارم موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست؛حامد خان نے لارجر بنچ کی استدعا کردی
پی ٹی آئی کی ساکھ
انھوں نے کہا کہ جب سب کا محور ایک ہی بانی ہو تو پارٹی تتر بتر نہیں ہو سکتی۔ پی ٹی آئی میں سیاست کرنے والے سب لوگ اس جماعت کی وجہ سے ہیں، اور بڑے لوگوں کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کے طوفان میں بجلی کی قیمتیں: گوہر اعجاز کی جرأت مندانہ باتیں
ملک کی بدامنی اور مہنگائی
سینیٹر شبلی فراز نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں بدامنی اور مہنگائی عروج پر ہے۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام کی سپورٹ ضروری ہے۔ ملک کے چار اکائیوں میں سے تین اکائیوں میں بے یقینی کی صورتحال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی تفصیلات سامنے آگئیں
ذاتی مفادات کے فیصلے
انہوں نے کہا کہ ہر ملک اپنے مفادات کے لئے فیصلے کرتا ہے، مگر پاکستان میں فیصلے ذاتی مفادات کے لئے کیے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور عدالتوں کو ایگزیکٹو کے نیچے کر دیا گیا ہے۔
قرضدار ملک کی خارجہ پالیسی
سینیٹر شبلی فراز نے یہ بھی کہا کہ ملک کو قرض پر چلایا جا رہا ہے، اور حکومت کو عوام کی سپورٹ حاصل نہیں ہے۔ ایک قرضدار ملک اپنی خارجہ پالیسی کیسے بنا سکتا ہے جب کہ محدود آپشنز موجود ہیں؟