قیام پاکستان کی تحریک کا حصہ ہونے پر فخر ہے،1947ء میں ہجرت کے بعد ملکی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے کے مواقع ملنا اللہ کی خاص عنایت ہے.

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 1
انتساب
تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے کارکنوں
تعمیر پاکستان کے لیے سرگرم عمل نوجوانوں
تحفظ پاکستان کے لیے جانیں لڑانے والے فوجیوں
اور
آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے دیانتداری سے
جدوجہد کرنے والے قانون دانوں کے نام
پیش لفظ
قیام پاکستان کی تحریک کا ایک حصہ ہونے پر مجھے فخر حاصل ہے۔ 1947ء میں بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے، صوبہ پنجاب کے معروف قصبے جڑانوالہ میں بھرپور بچپن گزارنے اور عنفوان شباب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے کے مواقع ملنا، مجھ پر میرے اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ اس دوران پاکستان یوتھ موومنٹ میں نوجوانوں کے مسائل کے حل اور سماجی خدمات میں سرگرم عمل شمولیت سے مجھے ایک ایسی خصوصی مہارت اور شعور حاصل ہوا جو سفر زیست میں قدم بقدم میرے کام آیا۔
اسی طرح سے 1970ء کے قومی انتخابات میں بطور جوائنٹ سیکرٹری اطلاعات پاکستان کونسل مسلم لیگ پنجاب، میاں ممتاز دولتانہ، سردار شوکت حیات اور ائیر مارشل نور خان کے ساتھ کام کرتے ہوئے سیاسی امور کا تجربہ حاصل ہوا۔ 1971ء تا 1988ء ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ کے ادارے فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان میں آبادی کے مسئلے پر تقریباً 17سال تک ڈسٹرکٹ سٹاف آفیسر سے لے کر زونل ڈائریکٹر تک مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دینے سے انتظامی معاملات میں رہنمائی ملی۔ 1989ء تا حال وکالت کے میدان میں قسمت آزمائی کے ساتھ ساتھ 1990ء تا 1997ء پاکستان مسلم لیگ (ن) اور 2002ء تا 2007ء پاکستان مسلم لیگ (ق) میں بالترتیب سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ لائیرز فورم پنجاب اور سنٹرل سیکرٹری اطلاعات پاکستان (لائیرز ونگ) سیاسی خدمات کی بجا آوری سے قانونی اور سیاسی و سماجی شعور کو جلا ملی۔
اس دوران کبھی خیال تک نہ آیا کہ مجھے اپنی آپ بیتی اور زندگی کے تجربات ضبطِ تحریر میں لانے چاہئیں۔ کیونکہ میں نہ کبھی لکھاری رہا ہوں نہ زندگی بھر اپنی ڈائری تحریر کی حتیٰ کہ میرے پاس متعلقہ ریکارڈ تک موجود نہ تھے۔
تاہم 2005-2009ء میں جب مجھے گورنمنٹ آف پنجاب نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدہ پر لاہور ہائی کورٹ لاہور میں تعینات کیا تو ان دنوں میرے ایک کلاس میٹ، ہوسٹل فیلو شیخ محمد رشید جج لاہور ہائی کورٹ تھے۔ ان کا شمار بڑے لائق ججوں میں ہوتا تھا۔ پیشتر ازیں وہ بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ ایک روز میں ان کے چیمبر میں ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا، وہاں ان کے پاس چودھری سلیمان ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی موجود تھے۔
دوران ملاقات جج صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رانا صاحب! مجھے معلوم ہے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور اور تاحال بھرپور زندگی بسر کی ہے۔ آپ کو اپنی بائیوگرافی، زندگی کے حالات و تجربات لکھنے چاہئیں۔ انہوں نے چودھری سیلمان سے بھی کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آفتاب اقبال چودھری کو میری طرف سے کہیں کہ وہ رانا صاحب کو اپنی بائیو گرافی لکھنے کے لیے ضروری دفتری تعاون مہیا کریں۔ بات آئی گئی ہو گئی لیکن جج صاحب کا مخلصانہ مشورہ میرے دل و دماغ میں پیوست ہو گیا۔ کچھ اور دوست جو مجھے بچپن اور یوتھ موومنٹ کے حوالے سے جانتے تھے مجھے ان کے سوالوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ”رانا صاحب ہم آپ سے توقع رکھتے تھے کہ آپ بہت آگے جائیں گے، کیا ہوا، آپ پیچھے کیوں رہ گئے“؟
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔