ذہنی معذور متاثرین کا بیان قلمبند کیے بغیر مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا: لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائی کورٹ نے قانونی نکتہ طے کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ذہنی معذور متاثرین کا بیان قلمبند کیے بغیر مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی سے ناراض ہوں: محمودخان اچکزئی
مقدمہ کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 21 سالہ گونگی، بہری اور ذہنی معذور لڑکی کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزمان کی اپیلوں پر 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے مقدمہ دوبارہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کردی۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹس کی فہرست جاری، پاکستان کونسے نمبر پر ہے؟
جسٹس طارق سلیم شیخ کا حکم
جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ پراسیکیوشن کے مطابق گونگی بہری اور ذہنی معذور لڑکی سے زیادتی کا مقدمہ 23 اپریل 2022 کو بہاولپور کی مقامی پولیس نے درج کیا اور نومبر 2022 کو ٹرائل کورٹ نے گونگی، بہری اور معذور لڑکی سے زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر ملزم محمد رمضان اور سعید اختر کو عمر قید کی سزا کا حکم سنادیا جس کے بعد ملزمان نے ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کی خلاف اپیلیں لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک شخص پورے ملک کو یرغمال بنا رہا ہے, حکومت سے کہوں گا زبردستی روکے: ملک محمد احمد خان
متاثرہ لڑکی کے بیان کا مسئلہ
فاضل جج نے فیصلے میں لکھا کہ متاثرہ لڑکی کے علاوہ وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے، پراسیکیوشن کے مطابق لڑکی گونگی، بہری اور ذہنی معذور ہے، تفتیشی افسر نے لڑکی کی معذوری کے باعث اس کا بیان ریکارڈ نہیں کیا، دوران ٹرائل پراسیکیوشن نے درخواست دی کہ متاثرہ لڑکی کی گواہی کے لیے ٹیسٹ کرایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: وہ کون تھا جس نے عمران خان کو توبہ کا مشورہ دیا؟
ٹرائل کورٹ کا فیصلہ
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے متاثرہ لڑکی کا ٹیسٹ کرایا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ لڑکی بیان ریکارڈ کرنے کی اہل نہیں ہے، جبکہ ٹرائل کورٹ لڑکی کے بیان کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں ناکام رہی۔
یہ بھی پڑھیں: ملتان: 11 سالہ بچے کے اغواء و قتل کے ملزم کو عمر قید کی سزا
نقصانات اور قانونی نکات
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے ماہر نفسیات یا دیگر ایکسپرٹ کی رائے کے بغیر ہی فیصلہ دے دیا، جو بہت سی خامیوں کا باعث بنتا ہے۔ قانون یہ نہیں کہتا کہ معذور شخص اپنے ساتھ بیتے تجربے کو بیان کرنے کے قابل نہیں، اس لیے عدالتوں کو ماہرین کی خدمات لینی چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اور انکی ٹیم نے عوامی موقف سن کر نہروں کا مسئلہ خوش اسلوبی سے سلجھایا: وزیراعلیٰ سندھ
بین الاقوامی قوانین کا حوالہ
جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ذہنی اور معذور افراد کے حقوق کے لیے بین الاقوامی قوانین بھی موجود ہیں۔ 1948 میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے نے ڈیکلیئریشن جاری کیا کہ سب کے حقوق برابر ہیں، آئین کا آرٹیکل 7 اور 8 قانون تک سب کو برابر کی رسائی کا حق دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دورہ آسٹریلیا اور زمبابوے کےلئے سعود شکیل، شاداب خان اور افتخار احمد کو ڈراپ کیے جانے کا امکان
قانونی کارروائی کا تسلسل
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کو متاثرہ خاتون کو دوبارہ طلب کرنا چاہیے، اور ماہرین کی رائے میں متاثرہ لڑکی کے بیان کے لیے متبادل انتظامات کرے۔ اگر متاثرہ لڑکی کا بیان ہو جاتا ہے تو ٹرائل کورٹ معاملے کو دوبارہ قانون کے مطابق دیکھے۔
عدالتی حکم کی تنائج
بعدازاں عدالت نے ملزم محمد رمضان اور سعید اختر کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دے کر ٹرائل کورٹ کو متاثرہ لڑکی کا بیان قلمبند کرکے دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔