واشنگ لائن پر بیک وقت کئی گاڑیاں دھل رہی ہوتی ہیں، ملازمین ہا ہا کار مچائے رکھتے ہیں، ایک کو دھو سنوار کر فارغ نہیں ہوتے کہ اگلی آن پہنچتی ہے

مصنف: محمد سعید جاوید
گاڑیوں کی مرمت اور صفائی
قسط: 94
گاڑیوں کی فنی مرمت اور صفائی پر مامور سیکڑوں ملازمین بھی ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ریلوے واشنگ لائن پر بھی بیک وقت کئی گاڑیاں دھل رہی ہوتی ہیں، اس لیے وہاں کام کرنے والے ملازمین اور نگران اپنی علیٰحدہ ہی ہا ہا کار مچائے رکھتے ہیں۔ وہ ایک گاڑی کو دھو سنوار کر فارغ بھی نہیں ہوتے کہ اگلی گاڑی آن پہنچتی ہے۔
انجنوں کی دیکھ بھال
اسٹیشن کے ساتھ ہی بنے ہوئے لوکو شیڈ میں انجنوں کی دیکھ بھال، مرمت اور صفائی کی جاتی ہے اور ان کا تیل پانی چیک کرکے ایندھن بھی بھرا جاتا ہے۔ قریب ہی بنے ہوئے ٹرن ٹیبل پر بھی تین چار ملازم چوکس بیٹھے ہوتے ہیں اور انجن وہاں پہنچنے پر کان مروڑ کر اس کا رخ بدل کر وہاں سے واپس بھگا دیتے ہیں تاکہ وہ پلیٹ فارم پر پہنچ کر اپنے دھندے پر لگے۔
کیبن اور سگنل کا عملہ
ہر چند کہ کیبن، سگنل اور لیول کراسنگ کا عملہ اسٹیشن کی عمارت میں موجود نہیں ہوتا، بلکہ وہاں سے کچھ دور دور رہ کر سر جھکائے اپنا کام کرتا ہے لیکن وہ بہر حال کوئی سوتیلے تو نہیں ہوتے، اْسی اسٹیشن کے ملازم ہوتے ہیں اور انتظامی طور پر وہیں سے ہدایات لیتے ہیں۔
بڑے اسٹیشن کی عمارت
ایک بڑے اسٹیشن کی عمارت بھی بہت وسیع و عریض اور دو تین منزلہ ہوتی ہے، اس لیے یہاں اس عمارت یا پلیٹ فارم پر تعمیری اور تخریبی سرگرمیاں ہر وقت ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ مستریوں اور مزدوروں کی فوج نے آئے دن کچھ نہ کچھ ادھیڑ رکھا ہوتا ہے، پھر کئی دن تک اس کی مرمت کے بہانے وہ موقع واردات کے آس پاس ہی منڈلاتے رہتے ہیں۔ اس دوران وہ سوائے کام کے، سب کچھ کرتے ہیں۔
مسافر خانوں کا عملہ
اسٹیشن کے مسافر خانوں اور انتظار گاہوں میں کام کرنے والا عملہ بھی وہیں موجود ہوتا ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ کس طرح ایسے بڑے اسٹیشن میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ریلوے کے ملازمین جگہ جگہ پھیلے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہتے ہیں۔ مرکزی سٹیشن کے زیادہ تر ملازمین 3 شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا کھانا گھروں سے لے کر آتے ہیں اور جو نہیں لاتے وہ پلیٹ فارم کے کسی سٹال یا اسٹیشن کے باہر چھپر ہوٹل سے کھا پی لیتے ہیں۔ جن ملازمین کو محکمہ کھانا فراہم کرتا ہے وہ کینٹین میں چلے جاتے ہیں۔
شہر کی رونق
آپ لاہور یا کراچی کے اسٹیشن میں داخل ہو جائیں تو وہاں آپ کو ایک پورا جہان آباد نظر آئے گا۔ یہ ساری کیفیت اتنی دل لبھانے والی ہوتی ہے کہ اْدھر ہی کسی پلیٹ فارم کے بنچ پر بیٹھ کر ان کو بھاگ دوڑ کرتے ہوئے دیکھنا بھی ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے جو میرے جیسے ریل گاڑی کی محبتوں کے مارے لوگوں کا ہاتھ پکڑے ماضی میں گھسیٹ کر لے جاتا ہے۔
قلیوں کا ذکر
اسٹیشن پر ان سرکاری لوگوں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جو اسٹیشن پر رونق لگائے رکھتے ہیں، جن میں پلیٹ فارم کے اسٹالوں پر کام کرنے والے ملازمین اور قلی شامل ہیں۔ کچھ تھوڑا سا ذکر قلیوں کا بھی ہوجائے جن کو اگر اسٹیشن سے منفی کر دیا جائے تو ہنستا بستا یہ مقام سنسان اور ویران نظر آنے لگے۔
قْلی
کسی بھی بڑے اسٹیشن پر سیکڑوں کے حساب سے قْلی ہوتے ہیں، جو ہر گاڑی میں آنے اور جانے والے مسافروں کو ان کا سامان ڈھونے کے لیے اپنا کاندھا پیش کرتے ہیں۔ یہ محکمہ ریلوے کے ملازم تو نہیں ہوتے لیکن ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور ان کے نہ ہوتے ہوئے بھی ان ہی کے ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔