اس نے بے وفائی نہ کی ایسی باتیں بھی یاد کرا دیں جو دماغ کے کسی کونے میں دب گئی تھیں، ایسی فلم چلی کہ حیران رہ گیا، مختلف شہروں میں بتائے سال یاد آگئے

مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 136
یہ بھی پڑھیں: فتنۃ الخوارج کے خلاف کارروائی کے دوران شہید میجر سید معیز عباس شاہ کی نماز جنازہ ادا، آرمی چیف کی شرکت
داؤ کا کمال
چچا نے مجھے بلایا اور بولے; "برخودار! کل میڈیکل بورڈ کی میٹنگ ہے۔ پیش ہونا۔ آنکھوں کے ڈاکٹر کو میں سمجھا دوں گا۔ تم جب ٹیسٹ کے لئے جاؤ تو پڑھنے والے چارٹ کی آخری دو لائنز کو رٹا لگا لینا۔" ایسے ہی کیا۔ اللہ کے کرم اور چچا کی مہربانی سے یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا۔ میں نے جوائننگ دی اور چند دن بعد مجھے پہلی پوسٹنگ "پراجیکٹ منیجر دیہی ترقیاتی مرکز لالا موسیٰ" کا پروانہ مل گیا۔ سروس کارپوریشن سے میں پہلے ہی استعفیٰ دے چکا تھا۔ والد کی مرسیڈیز میں سوار پہلی پوسٹنگ کا چارج لینے رات گوجرانوالہ بھائی جان بوبی کے گھر گزار کر 8 مئی 88 کو گجرات روانہ ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ثنا جم میں ورزش کی بولڈ ویڈیو شیئر کرنے پر تنقید کی زد میں آ گئیں
یادگار لمحات
میرا بچپن مختلف شہروں میں گزرا۔ بچپن کے ابتدائی سالوں میں ہی ایک حادثے کا شکار ہوا اور میری آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ اللہ کی کرم نوازی اور صوفی برکت علیٰ انیسؒ کی دعا سے آنکھوں کی روشنی لوٹ آئی تھی۔ جب میں نے اپنی بیتی لکھنی شروع کی تو میرا خیال تھا میری یادداشت میرا ساتھ نہ دے گی، لیکن اُس نے بے وفائی نہ کی بلکہ مجھے ایسی باتیں بھی یاد کرا دیں جو دماغ کے کسی کونے میں دب گئی تھیں۔ ایسی فلم چلی کہ میں خود ہی حیران رہ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ تعلیم کے میدان میں بہت آگے ہے، خواتین کیلئے یونیورسٹی اور میڈیکل کالج بھی ہے،یہاں گزرا ایک ایک دن خوبصورت لمحات کی یاد دلاتا ہے
گاؤں کی یادیں
چھوٹے ہوتے گاؤں جاتا تو گاؤں کی گلیوں میں بہتا گندہ پانی بھی یاد آ گیا، اجنبی کو دیکھ کر گاؤں کے کتے کا استقبال بھی آنکھوں کے پردے پر اتر آیا۔ گاؤں کی کچی سڑکوں پر چلتے مٹی اڑاتے گڈے (جن میں بیل جوتے ہوتے تھے) بھی یاد آ گئے۔ انہی کچے، نا ہموار راستوں پر دھول اڑاتے سواریوں سے بھرے ٹانگے اور سائیکل پر ڈاک تقسیم کرتے ڈاکئے بھی یاد آ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو ملنے گئے پی ٹی آئی رہنما اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار
ذائقے کے پل
دیسی مرغی کا لذیذ سالن، صبح کو انڈے پراٹھوں کے ناشتے جن میں گھر کا دیسی مکھن، چاٹی کی لسی کی عیاشی بھی نہیں بھولی۔ ہر گھر میں ایسی ذائقہ دار دال یا سبزی پکتی جو منہ سے نہ اترتی تھی۔ گوشت تو عیاشی تھی جو گاؤں سے دستیاب ہی نہ ہوتا تھا، اگر کبھی دل چاہتا تو شہر سے منگوانا پڑتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزن کم کرنے والے انجیکشن کا مردوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے یا خواتین پر؟ حیران کن تحقیق سامنے آگئی۔
خاندانی زمین اور ماضی
خاندانی زمین 295 گ ب بیریاں والا بھی یاد آ گئی اور ر ٹوبہ گوجرہ روڈ پت ریلوے لائن کے پاس تین کنال کی کوٹھی اور اس سے ملحقہ دس دوکانوں کی "شہزاد مارکیٹ" بھی دماغ کے کسی کونے سے آنکھوں کے پردے پر اتر آئی۔ اس کوٹھی کے آگے سے بہتا چھوٹا سا صاف پانی کا کھالہ بھی یاد ہے (جس میں ہم بہن بھائی مزارع کے بچوں کے ساتھ نہاتے تھے)۔ یہ ہماری بڑی تفریح تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سابق صدر نکسن کے سیکرٹری چک کالسن کو چند سال قید میں گزارنا پڑے، جو لوگ واٹر گیٹ سکینڈل میں ملوث تھے انہیں قانون کے مطابق سزائیں ہوئیں
پیارے لمحات
یہ ہلہ گulla تبھی ہوتا جب گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جاتے تھے۔ بیلنے سے تازہ گنے کا رس، رو سے بنی کھیر، بادام پستہ والا گڑ، مکھن میں ڈوبا ساگ اور دیسی گھی میں تیرتی مکئی کی روٹی۔ یہ سب نشہ تھا اور خوشبو دور سے ہی فضا کو مہکا دیتی تھی۔ واہ واہ! غریب کسان کے دوپہر کے کھانے میں بھی نشہ تھا جو گھر کی "چوپڑی روٹی"، پیاز اور چٹنی پر مشتمل ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے ایک ارب 72 کروڑ ڈالر دیگر ممالک کو بھیج دیئے گئے، منافع کا اخراج دگنا
ختم ہوتی یادیں
یہ سب میرے من پسند تھے اور آج بھی لکھتے ہوئے منہ میں پانی بھر آیا ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں). ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔