لاہور ہائیکورٹ کے کیانی ہال میں نامور قانون دانوں کی محفل سارا دن سجی رہتی، اکثریت اْنکی تھی جنہوں نے پاکستان تخلیق ہوتے دیکھا تھا

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 6
یہ بھی پڑھیں: فلک جاوید کو گھر تک چھوڑ کر آنے کا بندوبست کر لیا، حبافواد
لاہور ہائیکورٹ کی محفل
اْس زمانے میں لاہور ہائیکورٹ کے کیانی ہال میں پاکستان کے نامور اور مجھ جیسے بے نام قانون دانوں کی محفل سارا دن سجی رہتی تھی۔ تجربہ کار صاحبانِ علم و قانون کی سنجیدہ کلامیاں اور لطیفہ بازیاں نوآموز وکلاء بہت شوق سے سْنا کرتے تھے۔ ان وکلاء میں اکثریت اْن قانون دانوں کی تھی جنہوں نے پاکستان تخلیق ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بار میں سیاسی گپ شپ کے دوران سینئر وکلاء نے مسلم لیگ، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں عقیدت بھرے جذبات کا اظہار کرکے ہم جیسے نئے قانون دانوں کے لاشعور میں مسلم لیگ، قائداعظم اور علامہ اقبال کی عظمتوں کے ایسے چراغ روشن کئے جو ہمارے ایوانِ فکر و خیال کی طاقچوں میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے بازار میں گرنیڈ حملہ، ہلاکتوں کا خدشہ
رانا امیر احمد خاں کی شخصیت
قانون دانوں کی اس محفل آرائی میں ذرا چھوٹے قد، دھان پان بدن، پیشانی سے کافی پیچھے تک بے بال سر والے ایک قانون دان ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر قائد اعظم، علامہ اقبال اور پاکستان سے دیوانہ وار محبت کا اظہار کرتے اور ہجرت کے دوران بزرگوں کی قربانیاں بیان کیا کرتے تھے۔ میں نے اِدھر اْدھر سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کا اسم گرامی رانا امیر احمد خاں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بیورو کریسی میں مایوسی اور بے چینی۔۔؟ حیران کن تفصیلات سامنے آ گئیں
ذاتی احساسات
میں دقیانوسی راجپوت نہیں ہوں لیکن میں نے آج تک اپنی مونچھوں پر اْسترا نہیں پھروایا۔ اپنی اس نفسیاتی پس ماندگی کی وجہ سے مجھ ٹنڈے رانا امیر احمد خاں کی شخصیت میں مجھے کبھی دوستانہ کشش محسوس نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے باہمی تعلقات عرصہ دراز تک صورت آشنائی اور رسمی علیک سلیک سے آگے نہ بڑھ سکے اور مجھ جیسے بے خبر کو اتنا ادراک تک نہ ہو سکا کہ نسبتاً چھوٹے قد کے ان دھان پان بے مونچھ شخص کے اندر پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت کرنے والی ایک اتنی قد آور شخصیت چْھپی ہوئی ہے کہ جس کے بے لوث اور بے طمع جذبے کے سامنے بڑے بڑے قد کاٹھ والے نام نہاد سیاست دان بونے نظر آتے ہیں اور بڑی بڑی سیاسی مونچھوں والے لیڈروں کی مونچھیں نیچی دکھائی دینے لگتی ہیں۔ رانا صاحب کے خیالات سْن کر اہلِ محفل کے دلوں میں یہ احساس جاگنے لگتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی کھوکھلی نعرہ بازی پر دھوکہ کھانے کے بجائے وطن عزیز کو درپیش مشکلات اور ان کے حل کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
شعری الہام
رانا امیر احمد خاں کی ایسی ہی کھری کھری باتیں سْن کر مجھ پر یہ شعر الہام ہوا تھا:
کے پیچ و خم پر بھی سدا رکھیے نظر
آنکھ بند کر کے یقینِ راہبر نہ کیجئے
یہ بھی پڑھیں: فیض حمید اور مسلم لیگ (ن) کے روابط ۔۔؟سینیٹر خلیل طاہر سندھو بھی بول پڑے
یادوں کا سفر
رانا امیر احمد خاں کے حوالے سے میں نے اپنی یادوں کی بیاض کھولی تو سات آٹھ برس پہلے کا ایک منظر کسی فلم کی طرح یادِ ماضی کے پردے پر اْجاگر ہونے لگا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ میں عدالتی کام نپٹا کر کالے کوٹ میں پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے اپنے دفتر پہنچا تو دیکھا کہ رانا امیر احمد خاں دفتر کے پنکھے چلائے صوفے پر آرام فرما رہے ہیں۔ میں انہیں اپنے دفتر میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ تشریف آوری کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو درپیش سیاسی اور سماجی مسائل اور ان کے حل تجویز کرنے کے لیے مختلف تھنک ٹینک تشکیل دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے سٹیزن کونسل آف پاکستان کے نام سے ایک تنظیم رجسٹر کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس گفتگو کے دوران میں نے اپنا کالا کوٹ اْتار کر کرسی کی پشت پر لٹکا دیا۔ رانا صاحب نے کالے کوٹ تلے پسینے سے تر میری سفید قمیض پر مسکراتے ہوئے ایک نظر ڈالی۔ پھر سر سے پیر تک مجھ پر سوالیہ نگاہیں دوڑائیں اور فرمانے لگے، میں نے ہائیکورٹ بار کے بہت سے وکلاء کے بارے میں سوچا مگر سٹیزن کونسل کا سیکرٹری جنرل بنانے کے لیے کوئی وکیل آپ سے زیادہ مناسب دکھائی نہیں دیا۔
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔