بچپن کی ایک اور یاد جو ذھن کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی وہ آپاں اور بی بی جی کی سنائی کہانیاں تھیں،ایسے ہی نہیں کہتے نانیاں دادیاں سیانی ہوتی تھیں

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 139
نانی دادی کی کہانیاں
بچپن کی ایک اور یاد جو ذھن کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی وہ آپاں اور بی بی جی کی سنائی کہانیاں تھیں۔ آپاں محمد بی بی جب بھی ہمارے ساتھ رہنے کے لئے آتی تھیں، وہ ایک ہی کہانی سنایا کرتی تھیں جو آج تک مکمل نہیں ہوئی۔ اس کہانی میں ان تمام جانوروں کا ذکر ہوتا جن کے بارے آپاں نے سن رکھا تھا۔ کہانی کچھ یوں شروع کرتی تھیں؛
میں کاج راج تم ہرن راج لڑے ہرنا ٹوٹے سینگا بنواں ٹھلیا
پاٹوں مٹی، دھونواں چونچلے کھاواں چڑی دے چونچلے مٹکانواں موچھاں
(میں کوا ہوں تم ہرن، ہرن لڑے اس کا سینگ ٹوٹے۔ میں (کوا) مٹی اکھاڑوں، لاؤں پانی، دھوؤں چونچ، کھاؤں چڑی کے بچے اور مونچیں کو تاؤ دوں۔) اس میں بہت سے اور جانوروں کے نام بھی آتے، مجھے یہ کہانی اتنی ہی یاد رہ گئی ہے۔
بی بی جی ہمیشہ ایک نیک خدا ترس بادشاہ، ظالم جن اور رحم دل پری کی کہانی سناتی تھیں۔ کیسے رحم دل پری اس نیک بادشاہ کی خوبصورت بیٹی کو ظالم جن کے چنگل سے آزاد کراتی تھی۔ یہ کہانیاں سنتے سنتے ہی میں سو جاتا اور اگلے روز نانی یا دادی پھر سے یہی کہانی ابتداء سے سنانی شروع کرتی تھیں۔ ایسے ہی نہیں کہتے نانیاں دادیاں سیانی ہوتی تھیں۔
گڑوی لسی۔۔ چنگیر روٹی
قصبہ نما دیہاتوں میں بھی لوگوں کی رات کو جلد سونے کی عادت ہوتی تھی اور ان کی صبح بہت سویرے ہوتی تھی۔ شور کوٹ میں بھی لوگ جلدی بیدار ہوتے اور کاموں میں لگ جاتے تھے۔ مرد وضو کرکے تہجد کی نماز ادا کرتے اور پھر فجر کا وقت ہو جاتا۔ نماز کے بعد قرآن کی تلاوت با آواز بلند کرتے اور ان کی خوش الحانی دل میں اترتی تھی۔
خواتین بھی کم و بیش ان کے ساتھ ہی بیدار ہوتی تھیں۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ رفع حاجت کے لئے باہر نکل جاتیں۔ پانی بھر کر لاتیں، پھر دودھ دھوتیں، مکھن اور لسی نکالتی تھیں۔ اتنے میں ناشتے کا وقت ہو جاتا۔ مرد بھی نماز پڑھ کر گھروں کو لوٹ آتے۔ دیسی گھی کے پراٹھوں، تازہ مکھن اور چاٹی کی لسی سے ناشتہ کرتے اور پھر کھیتوں کی راہ لیتے یا اپنی ملازمت کا رخ کرتے۔
دوکانیں صبح سویرے کھلتی اور شام کو بند ہو جاتی تھیں۔ خواتین گھر کی صفائی اور دوسرے کام دھندوں میں لگ جاتی تھیں۔ دیہاتی عورت کی ذمہ داریوں میں سے ایک دوپہر کے وقت کھیتوں میں کام کرتے اپنے مردوں کو کھانا پہنچانا بھی تھا۔ روٹی کی چنگیر سر پر اٹھائے، کمر پر چاٹی کی گڑوی سجائے، لاچہ کرتا پہنے دیہاتی مٹیار میرے دل کو بہت بھاتی تھی۔
دلکش نظارہ تب ہوتا جب کوئی ہیر اپنے رانجھے، کوئی بیوی اپنے جند جانی اور کوئی بہن اپنے گھبرو ویر کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی یا کھانا کھاتے اسے ہاتھ سے پنکھا جھلتی اور پیار بھری نظروں سے دیکھتی تھی۔ کھیت کے کسی گھنے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر سادہ دال روٹی اور لسی کا "پیار بھرا لنچ" آدھ گھنٹے کی یہ بریک، محبت، رومانس، خلوص اور پیار کی وہ انتہا تھی جو اُس دور کے معاشرے کی معراج تھی۔
صبح سے شام تک عورت کے کام چل سو چل والی بات تھی۔ کب دن ڈھلتا پتہ ہی نہ چلتا تھا۔ شام گزرتی تو گھپ رات اتر آتی لیکن رات میں چمکتے چاند ستاروں سے بھرا آسمان ایسا نظارہ دیتا کہ اسے دیکھتے دیکھتے ہی نیند کی پری ان سادہ لوح، مخلص اور محبت کرنے والے لوگوں کو اپنی وادی لے جاتی تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔