ہالٹ حقیقت میں کسی بھی ریلوے اسٹیشن کے نام پر ایک دھبہ ہوتا ہے، ایسے اسٹیشن سیاسی اور با اثر لوگ دباؤ ڈال کر اپنے علاقے میں منظور کروا لیتے ہیں

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 98
ہالٹ
ہالٹ نام کا ایک چھوٹا اور برائے نام اسٹیشن ہوتا ہے جو حقیقت میں کسی بھی بڑے ریلوے اسٹیشن کے نام پر ایک دھبہ ہوتا ہے کیوں کہ وہ کسی طرح بھی اسٹیشن تو بالکل ہی نہیں لگتا۔ ایسے اسٹیشن معاشرے کے سیاسی اور با اثر لوگ ریلوے حکام پر دباؤ ڈال کر اپنے علاقے میں منظور کروا لیتے ہیں اور وہ بن بھی جاتے ہیں۔ پھراس پر اپنے باپ دادا کے نام کی تختی بھی لگوا لیتے ہیں اور اگر ان میں زیادہ دم خم ہوتا ہے تو وہ محکمے والوں کو کہلوا کے کسی تھکی ہاری مسافر گاڑی کو ایک آدھ منٹ کے لیے وہاں رکوا بھی لیتے ہیں۔
شہید فوجی کا اعزاز
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شہید فوجی اور اس کے خاندان یا علاقے کو اعزاز دینے کی خاطر اس ہالٹ کو اس کے نام سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ ریلوے والے اپنے قوانین کے مطابق وہاں پر منظور کیے گئے نام کے آگے ”ہالٹ“ کا لاحقہ لگا دیتے ہیں۔ یہاں گاڑی ایک رسم نباہنے کے خاطر لمحے بھر کو رکتی ہے۔ ایک آدھ مسافر چڑھتا یا اترتا ہے اور وہ فوراً ہی وسل بجاتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔ وہاں اترنے والا مسافر پہلے سے ہی اپنا سامان لے کر دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور گاڑی کو بریک لگتے ہی سامان نیچے پھینک کر اور لواحقین کو احتیاط سے اتار کر خود بھی نیچے کود جاتا ہے۔ گاڑی ایک بار پھر رفتار پکڑ کر لیتی ہے اور پٹری دوبارہ سنسان ہو جاتی ہے۔
احسان دانش کا شعر
ان اسٹیشنوں کا تصور کر کے احسان دانش کا یہ قطعہ یاد آ جاتا ہے:
ہمنشیں اْف اختتام بزم مے نوشی نہ پوچھ
ہو رہا تھا اس طرح محسوس ہوش آنے کے بعد
جس طرح دیہات کے اسٹیشنوں پر دن ڈھلے
اک سکوتِ مضمحل گاڑی گزر جانے کے بعد
ڈرائیور کے لئے ہدایات
ڈرائیور کو اگر ایسے اسٹیشن پر کوئی ہل جل نظر نہ آئے تو وہ یہاں رکتا بھی نہیں ہے، تاہم محکمہ جاتی ہدایات کے تحت وہاں ٹھہرنا لازم ہوتا ہے۔ ایسے زبردستی کے بنوائے ہوئے ہالٹ پر پلیٹ فارم نام کا کوئی تکلف نہیں ہوتا ہے، بس گاڑی آتی ہے، گاڑی جاتی ہے۔ اگر ہالٹ تھوڑا بڑا اور نسبتاً مصروف ہو تو وہاں ایک کمرے پر چھت ڈال کر اور ٹکٹ کے لیے ایک آدھ کھڑکی بنوا کر اس کے اسٹیشن ہونے کا تاثر دے دیا جاتا ہے۔
ملازمین کی حالت
پھر وہاں ایک اسٹیشن ماسٹر کے علاوہ ایک دو ادنیٰ ملازم رکھ دئیے جاتے ہیں، کام کاج زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اکثر وہاں سوئے ہوئے ہی ملتے ہیں یا آس پاس کی کسی دوکان پر بیٹھے گپ شپ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو چونکہ وہاں گاڑیوں کے آنے جانے کے اوقات کا علم ہوتا ہے اس لیے وہ وقت مقررہ پر آ کر اپنی مختصر سی ذمہ داریاں نباہ کر ایک بار پھراپنے ٹھکانوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کچھ ہالٹ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں کوئی اسٹیشن ماسٹر یا ملازم نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی عمارت ہوتی ہے، عموماً یہاں سے سوار ہونے والے اکا دکا افراد کو ٹکٹ بابو یا گارڈ گاڑی میں ہی ٹکٹ بنا کر دے دیتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔