بچپن کی آندھیاں اور بارشیں خوف طاری کر دیتی تھیں،بادی تھوڑی، مکان کم اور میدان زیادہ تھے،مائیں گھر سے باہر نہیں جانے دیتی تھیں

مصنف: شہزاد احمد حمید

قسط: 140

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاکر ربیکا خان کو شاہ رخ خان سے متعلق بیان مہنگا پڑگیا

بجلی کی کڑک اور خوفناک آندھیاں

بچپن کی آندھیاں اور بارشیں خوف طاری کر دیتی تھیں۔ صحرائی آندھی تو ریت کے موٹے گرم ذرات جسم پر گراتی بہت تکلیف دہ ہوتی تھی۔ تواتر سے چلتی آندھیاں بھی بڑی ناگوار تھیں۔ آبادی کم، مکان محدود اور میدان زیادہ تھے۔ یہاں آندھیوں کا شور اور زور بہت محسوس ہوتا تھا۔ ڈر بھی بڑا لگتا تھا۔ مائیں اور بزرگ عورتیں بچوں کو گھر سے باہر نہیں جانے دیتی تھیں، کیونکہ ان کے خیال میں "ان آندھیوں میں جن بھوت ہوتے تھے جو خاص طور پر خوبصورت لڑکیوں پر عاشق ہو جاتے۔"

مغرب کے بعد تو لڑکیوں کو گھر سے باہر جانے کی بالکل اجازت نہ تھی۔ میں نے ان آندھیوں میں کبھی کسی جن بھوت کو تو نہیں دیکھا، لیکن انسانوں کو جن بنتے ضرور دیکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھکاری بھیجنے میں تو اب ہم انٹرنیشنل ہو چکے ہیں، کتنی شرم کی بات ہے،جسٹس امین الدین

بارشوں کی شدت

بارشیں بھی خوب موسلا دھار ہوتی تھیں اور کئی کئی دن جاری رہتی تھیں۔ جمعرات کو شروع ہونے والی بارش، بزرگ عورتوں کی نظر میں "جمعرات کی جھڑی یا کیلوں والی" بارش ہوتی تھی، جو کئی دن تک برستی رہتی تھی۔ موسلا دھار بارش ہر طرف جل تھل کر دیتی تھی۔

کچی گلیوں میں ندی نالے بہنے لگتے تھے، لیکن یہ پانی جلد ہی اتر جاتا اور کیچڑ اور کھوبے کی لمبی لکیر چھوڑ جاتا۔ اگر پیر دھنس جاتا تو، پیر نکالنے کی کوشش میں اکثر ہوائی چپل کی بدری (سٹریپ) ٹوٹ جاتی تھی۔ غریب آدمی ٹوٹی چپل پر دوبارہ رسی یا بوٹ کا تسمہ باندھ کر گزارہ کرتا، جب تک کہ یہ مکمل طور پر جواب نہ دے دیتی تھی۔

ایسی موسلا دھار بارش میں بجلی کی کڑک دل کو دہلا دیتی تھی۔ بادل خوب گرجتے تھے۔ بجلی کی کڑک کے دوران بزرگ عورتیں کچھ یوں کہتیں؛
"بابا فرید شکر گنج، بجلی نوں کرو لوٹ چ بند"۔

میری بیوی بھی بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج سے بہت ڈرتی ہے اور اوپر درج فقرہ ضرور دھراتی ہے۔ واقعی، اس کڑک سے ڈرتے ہوئے وہ معصوم سی بچی ہی لگتی ہے۔

کندیاں کا سکول

میری عمر نو دس برس تھی جب ہم کندیاں کے دیہی ماحول میں کرائے کا گھر چھوڑ کر کمپنی کی جدید سہولیات سے آراستہ کالونی میں منتقل ہوئے۔ کندیاں کا قصبہ ہم سے تین چار میل دور ہو گیا تھا۔

کالونی کی پختہ سڑکوں کے کنارے مختلف اقسام کے پیڑ قطار در قطار لگے تھے۔ یہاں ایک جیسے گھر تھے جہاں کمپنی کے ملازمین اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے تھے۔ چند گھروں میں میرے ہم عمر بچے بھی تھے۔ کمپنی ملازمین کے تمام بچے اس مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھتے تھے۔ نجمہ، سائرہ، روبینہ، قیصر میرے کلاس فیلوز تھے جبکہ سائرہ کا بڑا بھائی طیب ہم سے بڑا تھا اور سنئیر کلاس میں پڑھتا تھا۔

بچوں کے کھیلنے کے لئے مناسب میدان تھے۔ فٹ بال کے پولز کے ساتھ میں روز لٹک کر ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتا اور بندر کی طرح اونچے پول پر چڑھنا ہم بچوں کا محبوب مشغلہ تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...