افغان حکومت کی بے حسی؟ واپس بھیجے گئے مہاجرین رل گئے، افسوسناک تفصیلات سامنے آگئیں

افغان مہاجرین کی حالت زار
پشاور، کابل (آئی این پی) پاکستان سے بے دخل کیے گئے متعدد افغان مہاجرین نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس افغانستان میں رہائش کے لیے گھر نہ موجود ہے اور نہ ہی زمین جس پر وہ کوئی گھر تعمیر کر سکیں۔ ان مہاجرین نے عبوری افغان حکومت سے فوری اقدامات کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن لیڈر عمرایوب ، ملک احمد چھٹہ اور عظیم الدین بھی اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار
مہاجرین کی مشکلات
پاکستان سے واپس جانے والے افغان شہری بختیار نے افغان خبر رساں ایجنسی طلوع نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ہماری ساری فصلیں اور مویشی برباد ہو گئے۔ یہ مسائل اس وقت شروع ہوئے جب ہم پر چھاپے مارے گئے۔ میرا بیٹا بیارزادہ بھی گرفتار ہوا، اور جو لوگ گھروں میں تھے، انہیں بھی واپس بھیج دیا گیا۔
ایک اور مہاجر محمد نبی نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں افغانستان میں ہمارے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ ہمارے پاس نہ گھر ہیں، نہ زمین۔ ہمارا سارا سامان باہر پڑا ہے۔ نہ ملازمت ہے اور نہ ہی کسی نے ہمارے لیے روزگار کا بندوبست کیا ہے۔ لیکن اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت رہائش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سکیورٹی گارڈ کی باصلاحیت بیٹی شہر بانو انٹرنیشنل کرکٹر بن گئی
افغان حکومت کی جانب سے اقدامات
ادھر افغانستان کی وزارت شہری ترقی کا دعویٰ ہے کہ وطن واپس آنے والے مہاجرین کے لیے ملک بھر میں درجنوں رہائشی کالونیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ وزارت کے ترجمان کمال افغان کے مطابق، وزیرت شہری ترقی و رہائش، جو مستقل رہائشی کمیٹی کی سربراہی کرتی ہے، اب تک بے دخل کیے گئے مہاجرین کے لیے ملک بھر میں 60 رہائشی کالونیاں تیار کر چکی ہے، جبکہ ہمارے صوبائی دفاتر مزید کالونیوں کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں سوتیلے باپ نے 5 سالہ بچی پر تیزاب پھینک دیا
بے دخلی کے اعداد و شمار
عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی ) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی میں اضافہ ہوا ہے، اور آئندہ دنوں میں مزید 16 لاکھ افراد کی واپسی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ امریکی امداد کی معطلی اور مہاجرین کی واپسی کی وجہ سے افغانستان کے انسانی بحران کی مزید گمبھیر صورت حال کی نشاندہی کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان اور ایران نے غیر دستاویزی افغان شہریوں کی واپسی کی کوششیں تیز کر دی ہیں، اور اگست 2021 سے اب تک 27 لاکھ سے زائد افراد واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ 2025 میں یہ رجحان مزید تیز ہو چکا ہے، خاص طور پر پاکستان میں غیر قانونی مہاجرین کے خلاف سخت کارروائی کے باعث ہزاروں افراد یا تو ملک بدر کیے جا رہے ہیں یا خود واپسی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس سے سرحدی صوبوں میں موجود میزبان کمیونٹیز اور سہولیات پر شدید دباؤ ہے۔
مہاجرین کی مدد کی ضرورت
مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن جمعہ خان پویا نے زور دیا ہے کہ نفسیاتی مشاورت، مالی امداد، نقل و حمل اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی بین الاقوامی تنظیموں، خصوصاً انسانی امدادی اداروں کی ذمہ داری ہے، اور یہ سہولیات افغان مہاجرین کو فوری طور پر فراہم کی جانی چاہئیں۔
ادھر ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کی بین الاقوامی کمیٹی نے بتایا ہے کہ یکم سے 7 اپریل 2025 کے درمیان 1,825 افغان خاندان، جن میں 12,775 افراد شامل ہیں، طورخم اور اسپن بولدک کے راستے وطن واپس آ چکے ہیں۔