دوست طالبعلموں پر مشتمل ”پھینٹی گروپ“ تشکیل دیا جس کاکام لڑکیوں کو چھیڑنے والے افراد کو پھینٹی لگانا تھا، ایک طاقتور رکن کا نام ”جِن“ رکھا ہوا تھا.

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 9
یہ بھی پڑھیں: پشاور زلمی کو پی ایس ایل 10 کے آغاز سے قبل ایک اور جھٹکا لگ گیا
سکاؤٹ تحریک اور کھیلوں کا فروغ
پھر یوں ہوا کہ گورنمنٹ ہائی سکول جڑانوالہ میں دورانِ تعلیم ہی رانا صاحب سکاؤٹ تحریک کا حصہ بن گئے اور بطور سکاؤٹ معاشرتی بھلائی کے لیے خدمات سرانجام دینے لگے۔ سکول میں انہوں نے کھیلوں کے فروغ میں سرگرمی دکھائی اور پہلی مرتبہ جڑانوالہ شہر میں ہاکی اور کرکٹ کی ٹیمیں منظم کروائیں اور کرکٹ ٹیم کا نام ”پاکستان کرکٹ کلب“ رکھا۔ کھیل کا کوئی باقاعدہ میدان موجود نہیں تھا۔ رانا صاحب نے اساتذہ اور فلاح پسند طلباء کے تعاون سے کرکٹ اور ہاکی کے میدان تیار کروائے۔
یہ بھی پڑھیں: مزید 4 افراد کے سر قلم، سعودی عرب میں رواں سال سزائے موت پانے والوں کی تعداد 303 ہوگئی
کامیاب مہمات
پھر یوں ہوا کہ جڑانوالہ کے بعد ان کی کاوش سے آنے والی ٹیموں نے ننکانہ، تاندلیانوالہ اور فیصل آباد تک کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھ دئیے۔ رانا صاحب کی سماجی خدمات کے حوالے سے ایک دلچسپ خدمت کا ذکر ضروری ہے۔ رانا صاحب نے دوست طالب علموں پر مشتمل ایک ”پھینٹی گروپ“ تشکیل دیا۔ جس کاکام لڑکیوں کو چھیڑنے والے افراد کو پھینٹی لگانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مارک کارنی کی غزہ میں جاری نسل کشی کی مخالفت، نیتن یاہو سیخ پا
پھینٹی گروپ
اس پھینٹی گروپ کا ایک طاقتور رکن بے خوف ہو کر جنّاتی انداز میں پھینٹی لگایا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے دوستوں نے اس کا نام ”جِن“ رکھا ہوا تھا۔ رانا امیر اس جِن کے لیے الہٰ دین کا درجہ رکھتے تھے۔ کسی خاتون کی بے حرمتی پر جونہی رانا صاحب غیرت بھرے الفاظ کا چراغ رگڑتے تھے یہ جِن تحمل کی بوتل سے باہر نکل آتا تھا اور خواتین کو چھیڑنے والے جنّاتی پھینٹا کھا کر بھاگ نکلتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 8 فروری 2024 کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق 3 درخواستیں عدم پیروی پر خارج
سیاسی دلچسپیاں
یہ تو تھے بچپنے اور لڑکپن کے سماجی رنگ۔ تحریکِ پاکستان کا چشم دید گواہ ہونے کی وجہ سے کچھ سیاسی رنگ بھی رانا صاحب کی بچہ شخصیت میں شامل ہو گئے تھے۔ اس حوالے سے ان کی ایک سیاسی کارروائی ایسی ہے جِسے بیان نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ رانا صاحب کی عمر دس سال کے لگ بھگ ہو گی کہ انہیں پتہ چلا کہ وزیر اعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان جڑانوالہ تشریف لا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: این اے 213 عمرکوٹ میں ضمنی الیکشن کیلئے پولنگ کا آغاز، سخت سکیورٹی انتظامات
وزیر اعظم سے ملاقات
رانا صاحب کسی نہ کسی طرح میونسپل کمیٹی میں ہونے والی اس تقریب میں پہنچ گئے۔ معززین اور اعلیٰ افسران وزیر اعظم کے استقبال کے لیے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ رانا صاحب ایک سیاسی شخصیت کے عقب میں کھڑے ہو گئے۔ وزیر اعظم کی آمد پر سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ رانا صاحب ان کی بے توجہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معززین کی قطار میں داخل ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی اقتدار میں آ کر متنازعہ غیر آئینی ترامیم کا خاتمہ کرے گی: بیرسٹر سیف
یادگار لمحہ
وزیر اعظم لیاقت علی خان جب معززین سے ہاتھ ملاتے ملاتے رانا صاحب کے سامنے پہنچے تو ایک بچے کو دست بستہ دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئے پھر مسکراتے ہوئے جھک کر ان سے ہاتھ ملایا اور دونوں ہاتھوں سے ان کے دونوں گال تھپتھپائے، رانا صاحب جب بھی یہ واقعہ یاد کرتے ہیں تو ان کے دونوں رخساروں پر سرخی رقص کرنے لگتی ہے اور شہیدِ ملت کی تھپتھپاہٹ انہیں اپنی دھڑکنوں میں تھپ تھپ کرتی محسوس ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ آئینی بنچ نے 26ویں ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت موخر کرنے کی درخواست خارج کردی
فن تقریر کی مہارت
رانا صاحب کی عادت یہ ہے کہ وہ ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر پْرجوش لہجے میں تقریر کرتے ہیں۔ انہوں نے جڑانوالہ سکول کی بزم ادب میں اپنے استادوں سے تقریر کرنے کی اْستادی سیکھی۔ زندگی کی پہلی باضابطہ تقریر اس وقت کی جب وہ دوسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ یہ تقریر سندھ کے پہلے مسلمان فاتح محمد بن قاسم پر تھی۔
اکیلے تقریر کی مشق
فنِ تقریر میں مہارت حاصل کرنے کا رانا صاحب نے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ داؤ لگا کر کھیتوں کی طرف اکیلے نکل جاتے تھے اور مختلف موضوعات پر سبز دوشالہ اوڑھے کھڑی فصلوں کو تقریریں سنایا کرتے تھے۔ وہ جس اعتماد سے فصلوں کے سامنے تقاریر کیا کرتے تھے اسی اعتماد بھرے لہجے میں انسانوں کے سامنے بھی تقاریر کرنے لگے اور آج تک کرتے چلے جا رہے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔