ریل کے کھانوں کا ذکر کرنا بھول ہی گیا،‘ ریل شیخوپورہ اسٹیشن پر رکی تو والد بہت ساری پوریاں، حلوہ اور بھاجی/ چنے لے آئے،یہ لذیذ اور منفرد ناشتہ تھا

مضمون کا آغاز
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 142
یہ بھی پڑھیں: ایران میں 28 کو ہلاک اور ایک ہزار سے زائد لوگوں کو زخمی کرنے والے دھماکے کی ممکنہ وجہ سامنے آگئی
سفر کی شروعات
ادھر سے ریل نے دوسری وسل بجائی اور آہستہ آہستہ سٹیشن سے رینگنے لگی۔ مجھے والد کی آواز سنائی دی؛ "دیکھا میرے بیٹے نے دھکا لگایا اور ریل چل پڑی۔" والد کی بات سن کر میں خود کو ٹارزن سمجھتا تھا۔ ان دنوں ٹھنڈ بھی خوب ہوتی تھی۔ سرد موسم میں سر شام ہی باہر اندھیرا چھا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے پانی روکنے کے لیے کوئی سٹرکچر بنایا تو اسے تباہ کردیں گے، پاکستان کے وزیر دفاع نے خبردار کردیا
کھڑکی سے باہر کا منظر
اس زمانے میں بجلی کی سہولت ہر جگہ نہ تھی۔ ریل کی چھت سے لگے بلب کی روشنی بھی واجبی سی ہی تھی اور باہر گھپ اندھیرا۔ ہم پانچوں بہن بھائی ریل کے ڈبے کی دو کھڑکیوں سے جڑے باہر کے اندھیرے میں دیکھنے کی ناکام کوشش کر کے آپس میں لڑنے بھی پڑتے لیکن والد کی گھوری سب کو خاموش کرا دیتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: انگلینڈ کی پاکستان کیخلاف پوزیشن مضبوط، جوئے روٹ کی ڈبل سینچری، 12 رنز کا خسارہ باقی
کھانے کی خوشبو
دو گھنٹے کے سفر کے بعد بھوک ستانے لگی تو والدہ سے کھانے کا کہنے لگے۔ میری بہن فرح بولی؛ "امی ریل میں کھانا کیسے ملے گا؟" میری والدہ مسکرائی، اسے پیار کیا اور دستر خوان کھولا تو اس میں پراٹھے، آملیٹ (مرچوں والے انڈے) اور آلو قیمہ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: تاریخی جیت: سکاٹ لینڈ کے خلاف بنگلہ دیشی خواتین کرکٹرز کی جذباتی تصاویر وائرل
خوشگوار یادیں
سب کو پراٹھے، آلو قیمہ اور آملیٹ دیا گیا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو صراحی سے پانی پیا۔ جو کھانا بچ گیا امی جی نے سمیٹ لیا۔ کھانا کھا کر سب بچے سو گئے۔ مجھے تو اس کھانے کا عمر بھر ایسا نشہ رہا کہ بعد میں جب بھی لمبے سفر پر روانہ ہوتا، ایسا ناشتہ بطور زاد راہ ساتھ رکھتا۔
یہ بھی پڑھیں: 80 گھنٹوں میں 3 میٹنگز: اپنا سپاہی چھڑانے کے لیے بھارتی فوج منت سماجت پر اتر آئی
فرحت بھرا ناشتہ
سچ تو یہ ہے کہ ہم سب بہن بھائی اس کھانے کے ایسے نشئی ہوئے کہ بڑی رغبت سے ٹھنڈے پراٹھے، آملیٹ، آلو قیمہ کھاتے اور بعد میں ہمارے ملازم بوٹے کے بنائے شامی کباب بھی شامل ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: قطر کا امریکہ کو تاریخ کا مہنگا ترین تحفہ دینے کا فیصلہ، ٹرمپ نے تصدیق بھی کر دی
صباح کی روشنی
ساری رات کے سفر کے بعد آنکھ کھلی تو سرد موسم کا سورج بھی کانپتے کانپتے افق پر بلند ہو رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر مملکت حذیفہ رحمان نے بیجنگ میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں ”پاک چین ثقافتی کوریڈور“ کی تجویز دے دی
حلوہ پوری کا شوق
امی ابا جی سے کہنے لگیں؛ "میری والدہ میرے والد کو عمر بھر اسی نام سے پکارتی رہیں جبکہ والد انہیں 'پارو' کہتے تھے۔" انہوں نے پوچھا؛ "شیخوپورہ کب آئے گا؟" والد نے جواب دیا؛ "اگلا سٹیشن شیخوپورہ ہی ہے۔" کہنے لگیں؛ "مجھے یہاں سے حلوہ پوری کھانی ہے۔" ریل سٹیشن پر رکی تو والد بہت ساری پوریاں، حلوہ اور بھاجی/چنے لے آئے۔
یہ بھی پڑھیں: مظاہرین کی اموات کی خبروں میں صداقت نہیں: پمز ہسپتال
ذائقے کی تلاش
حلوہ پوری ہم بہن بھائی پہلی بار دیکھنے اور کھانے والے تھے۔ یہ واقعی لذیذ اور منفرد ناشتہ تھا جو آج بھی ہماری پسندیدہ انتخاب ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ اب پوری ہضم کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ لسی اس ناشتے کا لازمی جزو ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی دفاعی اور سفارتی ناکامیوں پر ملک میں تنقید میں اضافہ
ریل کی کلاسز
ریل کے 3 قسم کی ٹکٹ یا کلاسز ہوتی تھیں۔ فرسٹ کلاس، انٹر یا سیکنڈ کلاس اور تھرڈ کلاس۔ سفید پوش لوگ انٹر کلاس میں ہی سفر کرتے تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ کم کلاس کی ٹکٹ میں بہتر کلاس میں سفر کرے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان، کاروبار میں تیزی، ڈالر سستا
گھریلو زندگی اور ٹرین کا کھانا
ریل کے کھانوں کا میں ذکر کرنا بھول ہی گیا۔ سفید لباس میں ملبوس بیرے چلتی ٹرین میں مسافروں تک پہنچتے اور کھانے کے آڈر لیتے۔ اور جیسے ہی ٹرین کسی سٹیشن پر رکتی، کھانا پہنچ جاتا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔