ریل کے کھانوں کا ذکر کرنا بھول ہی گیا،‘ ریل شیخوپورہ اسٹیشن پر رکی تو والد بہت ساری پوریاں، حلوہ اور بھاجی/ چنے لے آئے،یہ لذیذ اور منفرد ناشتہ تھا

مضمون کا آغاز
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 142
یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی ایک روزہ دورے پر عمان پہنچ گئے، اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں
سفر کی شروعات
ادھر سے ریل نے دوسری وسل بجائی اور آہستہ آہستہ سٹیشن سے رینگنے لگی۔ مجھے والد کی آواز سنائی دی؛ "دیکھا میرے بیٹے نے دھکا لگایا اور ریل چل پڑی۔" والد کی بات سن کر میں خود کو ٹارزن سمجھتا تھا۔ ان دنوں ٹھنڈ بھی خوب ہوتی تھی۔ سرد موسم میں سر شام ہی باہر اندھیرا چھا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 10 ٹرینیں آوٹ سورس کی جائیں گی: وفاقی وزیر ریلوے
کھڑکی سے باہر کا منظر
اس زمانے میں بجلی کی سہولت ہر جگہ نہ تھی۔ ریل کی چھت سے لگے بلب کی روشنی بھی واجبی سی ہی تھی اور باہر گھپ اندھیرا۔ ہم پانچوں بہن بھائی ریل کے ڈبے کی دو کھڑکیوں سے جڑے باہر کے اندھیرے میں دیکھنے کی ناکام کوشش کر کے آپس میں لڑنے بھی پڑتے لیکن والد کی گھوری سب کو خاموش کرا دیتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: تھری پارکر کے پہاڑی علاقے کی سیر کرنے گئے 11 سیاح ریلے میں پھنس گئے، ایک ہلاک
کھانے کی خوشبو
دو گھنٹے کے سفر کے بعد بھوک ستانے لگی تو والدہ سے کھانے کا کہنے لگے۔ میری بہن فرح بولی؛ "امی ریل میں کھانا کیسے ملے گا؟" میری والدہ مسکرائی، اسے پیار کیا اور دستر خوان کھولا تو اس میں پراٹھے، آملیٹ (مرچوں والے انڈے) اور آلو قیمہ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف لاہور قلندرز کی بیٹنگ جاری
خوشگوار یادیں
سب کو پراٹھے، آلو قیمہ اور آملیٹ دیا گیا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو صراحی سے پانی پیا۔ جو کھانا بچ گیا امی جی نے سمیٹ لیا۔ کھانا کھا کر سب بچے سو گئے۔ مجھے تو اس کھانے کا عمر بھر ایسا نشہ رہا کہ بعد میں جب بھی لمبے سفر پر روانہ ہوتا، ایسا ناشتہ بطور زاد راہ ساتھ رکھتا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی ایئر پورٹ پر سعودی عرب جانے کی کوشش میں خاتون گرفتار، یہ کون تھی ؟ پتا چل گیا
فرحت بھرا ناشتہ
سچ تو یہ ہے کہ ہم سب بہن بھائی اس کھانے کے ایسے نشئی ہوئے کہ بڑی رغبت سے ٹھنڈے پراٹھے، آملیٹ، آلو قیمہ کھاتے اور بعد میں ہمارے ملازم بوٹے کے بنائے شامی کباب بھی شامل ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: During Flight, Female Passenger Did Such an Act That Fellow Passengers Attacked Her
صباح کی روشنی
ساری رات کے سفر کے بعد آنکھ کھلی تو سرد موسم کا سورج بھی کانپتے کانپتے افق پر بلند ہو رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کے اجلاسوں میں کیا ہو رہا ہے ۔۔۔؟ شاہزیب خانزادہ نے بتا دیا
حلوہ پوری کا شوق
امی ابا جی سے کہنے لگیں؛ "میری والدہ میرے والد کو عمر بھر اسی نام سے پکارتی رہیں جبکہ والد انہیں 'پارو' کہتے تھے۔" انہوں نے پوچھا؛ "شیخوپورہ کب آئے گا؟" والد نے جواب دیا؛ "اگلا سٹیشن شیخوپورہ ہی ہے۔" کہنے لگیں؛ "مجھے یہاں سے حلوہ پوری کھانی ہے۔" ریل سٹیشن پر رکی تو والد بہت ساری پوریاں، حلوہ اور بھاجی/چنے لے آئے۔
یہ بھی پڑھیں: محسن نقوی سے امریکی سفیر کی ملاقات، دو طرفہ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال
ذائقے کی تلاش
حلوہ پوری ہم بہن بھائی پہلی بار دیکھنے اور کھانے والے تھے۔ یہ واقعی لذیذ اور منفرد ناشتہ تھا جو آج بھی ہماری پسندیدہ انتخاب ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ اب پوری ہضم کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ لسی اس ناشتے کا لازمی جزو ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ آئینی بنچ نے اعلیٰ عدلیہ ججز کی پارلیمنٹ میں تقریروں کیخلاف درخواست خارج کردی
ریل کی کلاسز
ریل کے 3 قسم کی ٹکٹ یا کلاسز ہوتی تھیں۔ فرسٹ کلاس، انٹر یا سیکنڈ کلاس اور تھرڈ کلاس۔ سفید پوش لوگ انٹر کلاس میں ہی سفر کرتے تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ کم کلاس کی ٹکٹ میں بہتر کلاس میں سفر کرے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی میڈیا کا پول کھل گیا، اپنے عوام کو اتنا بے وقوف بنایا کہ بالآخر بھارتی بھی بول پڑے
گھریلو زندگی اور ٹرین کا کھانا
ریل کے کھانوں کا میں ذکر کرنا بھول ہی گیا۔ سفید لباس میں ملبوس بیرے چلتی ٹرین میں مسافروں تک پہنچتے اور کھانے کے آڈر لیتے۔ اور جیسے ہی ٹرین کسی سٹیشن پر رکتی، کھانا پہنچ جاتا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔