کھانوں کے معیار پر قسم نہیں اٹھائی جا سکتی، نان پکوڑے اور پلیٹ فارم کا جنم جنم کا ساتھ ہے، سٹال والے کی دعا ہوتی ہے کھانا کھا کر لوگ نکل جائیں

مسافروں کے لیے سستے کھانے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 102
شدید بھوک میں مبتلا مسافروں کے لیے سستے کھانے بھی دستیاب ہوتے ہیں جن میں دال چاول، شامی کباب، کٹلس، یا نان روٹی اور سالن بھی مل جاتے ہیں جو وہ وہیں کھڑے ہو کر افراتفری کے عالم میں کھا لیتے ہیں یا "گھر" والوں کے لیے اخبار میں لپیٹ کر لے جاتے ہیں۔ اسٹیشن کے کھانوں کے معیار پر کوئی قسم نہیں اٹھائی جا سکتی۔ ہر سٹال والے کی یہی دعا ہوتی ہے کہ اس کا کھانا کھا کر لوگ جلد از جلد اسٹیشن سے نکل جائیں، اس کے بعد نہ تو وہ واپس آئیں گے اور نہ ہی ان کے کھانے والے کی کوئی شکایت آئے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ 12 مئی کو 18 سال گزر گئے، ذمہ دار آج تک قانون کی گرفت سے باہر
علاقائی سوغاتیں
کچھ دوکانوں اور اسٹال پر اس شہر کی سوغاتیں بھی ملتی ہیں جیسے ملتان کا سوہن حلوہ، خان پور کے پیڑے اور حیدر آباد کی لسی وغیرہ۔ کچھ نے تو اپنے علاقے کے روایتی ملبوسات، ٹوپیاں، یا دستکاری کے نمونے بھی سجا رکھے ہوتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر چلتے پھرتے خوانچہ فروش سستی خوراک یعنی نان پکوڑے، آلو کی ٹکیاں وغیرہ چند روپوں کے عوض اخبار میں لپیٹ کر پکڑا دیتے ہیں۔ نان پکوڑے اور ریلوے پلیٹ فارم کا تو جنم جنم کا ساتھ ہے جو غالباً ہندوستان میں ریل گاڑی کی آمد کے ابتدائی دنوں سے ہی چلا آ رہا ہے۔ یہ انتہائی سستا اور فوری طور پر دستیاب ہو جانے والی قدرے صاف ستھری خوراک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صوبائی حکومتیں بجلی کے بلوں کی مد میں 146 ارب روپے کی نادہندہ
پانی کی مشکلیں
ٹھنڈا پانی
ہر چند کہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کاغذوں کی حد تک یخ بستہ پانی کے کولر لگے ہوئے ہیں لیکن کم از کم مجھے تو آج تک ایسا کوئی کولر نہ نظر آیا جس میں سے ٹھنڈا پانی نکلتا ہو۔ یہ ہمیشہ گرم پانی ہی اگلتے ہیں جو چلو بنا کر پینا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہاں زنجیروں میں جکڑے ہوئے دھاتی گلاس یا کٹوروں کو کچھ رحم دل لوگ ان زنجیروں کے ستم سے آزاد کروا کر ساتھ ہی لے گئے ہوتے ہیں۔ کسی کباڑئیے کے ہاں ایک آدھ روپے کا تو بک ہی جاتا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں دستی سٹامپ پیپرز پر پابندی، ای سٹامپنگ کا نظام نافذ
پرانی یادیں
یہ تو شکر ہے کہ نام کا ہی سہی، کولر تو ہے ورنہ پہلے تو یہاں ہر وقت چوڑے دہانے والے نل لگے ہوتے تھے۔ جو پوری رفتار سے مسلسل پانی بہاتے رہتے تھے۔ گاڑی رکتے ہی مسافر اپنی صراحیاں، کولر یا دوسرے برتن لے کر ان نلوں کی طرف دوڑتے تھے اور منٹوں میں پانی بھر کے لے آتے تھے۔ یہ نل اس لیے بھی 12 مہینے پانی اگلنے پر مجبور ہوتے تھے کہ ان کی ٹونٹیاں بھی کسی "فنکار" نے کھول کر بیچ کھائی ہوتی تھیں اور محکمہ ریلوے نئی ٹونٹیاں لگوانے سے اس لیے بھی ہچکچا رہا ہوتا ہے کہ صبح ہونے سے قبل یہ ایک بار پھر کھل کر غائب ہو جائیں گی۔
کتاب کی معلومات
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔