قیمتیں کم اور اشیاء خالص تھیں، دیسی گھی کھانے والے کو آج پینڈو سمجھا جاتا ہے یا حسرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ڈبل روٹی بیماروں کی خوراک تھی۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 144
قبرستان چھوٹے تھے۔ شاید آبادی بھی کم تھی اور کھلے میدان زیادہ تھے۔ سر سبز کھیت دور تک پھیلے تھے جن میں مختلف فصلیں کاشت ہوتی تھیں۔ قیمتیں کم اور اشیاء خالص تھیں۔ بیکری نام کی کوئی چیز نہ تھی البتہ مقامی طور پر رس اور باقر خانی وغیرہ تیار کی جاتی تھی۔ ڈبل روٹی بیماروں کی خوراک تھی۔ دیسی گھی کے علاوہ کوئی اور گھی استعمال نہ ہوتا تھا۔ ڈالڈا جب پہلی بار مارکیٹ میں آیا تو اسے خریدنے والا چھپا کر ہی گھر لے جاتا تھا کہ لوگ کہیں گے ڈالڈا کھاتا ہے۔ ڈالڈا کے بعد ”تلو“ گھی بھی مارکیٹ میں آیا۔ اب تو خالص دیسی گھی سوغات ہے اور اس کے دام عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دیسی گھی کھانے والے کو تو آج پینڈو سمجھا جاتا ہے یا حسرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
قبرستان کی میتھ
قبرستان کے پرانے درختوں کے حوالے سے بھی عجیب عجیب داستانیں منسوب تھیں۔ ان درختوں کے بارے مشہور تھا کہ ان پر جن اور چڑیلیں رہتی تھیں۔ خوبصورت لڑکے یا عورت کو وہ چمٹ جاتے تھے۔ لہٰذا گرمیوں کی شکر دوپہر اور مغرب کے بعد قبرستان سے گزرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ میں تو کئی بار شام گئے اور تپتی دوپہر میں بھی قبرستانوں کے پرانے درختوں کے پاس سے گزرا۔ مجھے نہ کوئی جن نظر آیا نہ ہی کوئی چڑیل دکھائی دی شاید میں ”خوبصورت نہ تھا۔“ البتہ عامل حضرات کسی جوان لڑکی یا خوبصورت خاتون کو دیکھ کر اُس کے لواحقین کو یہ یقین دلانے میں ضرور کامیاب ہو جاتے تھے کہ”خاتون پر جن کا سایہ ہے“ حالانکہ وہ جن خود عامل خود ہی ہوتے۔ عورتیں ان کی باتوں اور ہوس کا شکار ہوتیں اور وارث پیدا کرنے کے چکر میں بہت سا روپیہ اور عزت تک گنوا دیتی تھیں۔
قصہ بنگالی بابا کا
لاہور کے ایسے ہی ایک عامل (جو ”بنگالی بابا“ کے نام سے مشہور تھا) کے ساتھ ہونے والا دل لگی کا واقعہ دماغ کے سرد خانے سے گرم خانے میں اتر آیا ہے۔ اب جب کچھ سیانا ہو گیا ہوں تو اس حماقت کو یاد کرکے خوب ہنسی آتی ہے اور اپنی بے وقوفی کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن ایک بات طے ہے جوانی منہ زور ہوتی ہے اس میں ڈر ہوتا ہی نہیں یہ تو شعور ڈرپوک بنا تا ہے جبکہ لا شعوری دلیر۔
ایک دن میں اور شعیب نیلا گنبد سے واپس ماڈل ٹاؤن آ رہے تھے۔ شعیب کی موٹر سائیکل میں چلا رہا تھا۔ شمع سینما کے پاس پہنچے تو الٹے ہاتھ ایک بلند عمارت پر ”عامل بنگالی بابا“ کا بڑا سا اشتہار دیوار پر پینٹ ہوا دیکھ کر نہ جانے دل میں کیا حماقت سوجھی۔ شعیب سے کہا؛”اس کے پاس چل کر پوچھتے ہیں کہ بی اے میں 3 سال سے فیل ہو رہے ہیں کوئی تعویز دیں کہ پاس ہو جائیں حالانکہ مجھے بی اے پاس کئے 2 سال ہو چکے تھے اور میں لاء کالج میں پڑھتا تھا جبکہ شعیب تھرڈ ایئر میں تھا۔ شعیب تو ہر وقت ایسے پنگے لینے کو تیار رہتا تھا۔
اس زمانے میں وہ کھلی شلوار قمیض کے نیچے پشاوری چپل پہنا کرتا تھا۔ زیادہ صحت مند ہونے کی وجہ سے کچھ کچھ گینگسٹر بھی لگتا تھا۔ بس موٹر سائیکل اس کے ”آستانے“ کی جانب گھمائی اور بابا سے ملنے کے لیے تنگ سی سیڑھیاں چڑھ کر آستانے پہنچ گئے۔ ہمارا پہلا ٹاکرا کمرے میں بیٹھے اس کے تیس پنتیس سال کی عمر کے چیلوں سے ہوا۔ کالی ڈاڑھی، سر کے بال لٹ دار اور کندھوں پر بکھیرے، آنکھیں سرخ۔ آنے کا مقصد بیان کیا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے انتظار کرنے کو کہا۔ دس پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد بابا جی کے کمرے سے ایک برقع پوش اور دوسری چادر میں لپٹی جوان خواتین برآمد ہوئیں جو قد بت سے خاصی پر کشش تھیں۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔