مزہ تو تب ہے، جب حب الوطنی کا مظاہرہ دشمنوں کے سامنے کیا جائے، پاکستانی وکلاء اور صحافیوں کا وفد کانپور بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر انڈیا گیا۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 13
حب الوطنی کا مظاہرہ
رانا صاحب کی پاکستان سے محبت شک و شبہ سے بالاتر ہے اور مزہ تب ہے، جب اس حب الوطنی کا مظاہرہ غیروں بلکہ دشمنوں کے سامنے کیا جائے، جو رانا صاحب نے ببانگ دہل کیا۔ 2009ء میں پاکستانی وکلاء اور صحافیوں کا ایک 9 رکنی وفد کانپور بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر اْن کی یوم تاسیس میں شرکت کرنے کے لئے انڈیا گیا۔ وہاں ہندوستان کے تین اخباروں کے نمائندگان کو دئیے گئے ایک مشترکہ انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں رانا صاحب نے کہا:
"کشمیر کے تنازعے نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس جھگڑے کی وجہ سے ہم تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ہزاروں جوانوں کا خون بہا چکے ہیں۔ کھربوں روپیہ اور ساٹھ قیمتی سال ضائع کر چکے ہیں۔ اگر بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہرلعل نہرو کے اقوام متحدہ میں کئے گئے اعلان کے مطابق کشمیر میں غیر جانبدارانہ استصواب رائے کا عمل مکمل کر لیا جاتا، تو مسئلہ نصف صدی قبل حل ہو چکا ہوتا اور دونوں ممالک اپنے اپنے بجٹ کا غالب حصہ فوجی تیاریوں پر خرچ کرنے کی بجائے عوامی فلاح کے منصوبوں اور زرعی و صنعتی پراجیکٹس پر لگا کراس خطے میں خوشحالی کا انقلاب لا چکے ہوتے۔"
ہماری حیثیت
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہمارے منصوبوں سے روشنی حاصل کر کے معاشی ترقی میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ ہمیں دل سے ایک دوسرے کو مکمل آزاد، خودمختار اور برابر درجے کے ممالک کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔ تب ہی ہم دوستی اور خوشحالی کے پائیدار راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ کسی ملک کے وجود کو ختم کرنے کا خواب دیکھنا اور پھر اْس سے دوستی کرنا محبت کے جذبوں کو نہیں بلکہ منافقت کے رنگوں کو اْجاگر کرتا ہے۔ ہمیں اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہو گی۔
انڈین وکیل کا خطاب
اسی دورے کے دوران پاکستانی وفد کے اعزاز میں انڈین سپریم کورٹ کی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دئیے گئے استقبالیہ میں خطاب کرتے ہوئے ایک سینئر انڈین وکیل مسٹر شیروانی نے پہلے تو پاکستانی وفد کو خوش آمدید کہا، کچھ میٹھی میٹھی باتیں کیں اور پھر تقریر کا رْخ گھمایا اور بولے:
"تقسیم ہند کے باوجود یہ ریجن ایک مشترکہ وراثت کا مالک ہے۔ ملک اہمیت نہیں رکھتے، اصل چیز ان کی یکجہتی ہے۔ میں اکھنڈ بھارت نہیں بلکہ گریٹر بھارت پر یقین رکھتا ہوں۔
اور پھر پاکستانی وفد کے ارکان کا تاثر دیکھ کر بات سے بات نکالتے ہوئے کہا "میں اکھنڈ بھارت کا نظریہ ملکوں کے حوالے سے نہیں، بلکہ ثقافتی یکجہتی کے حوالے سے پیش کر رہا ہوں"۔
رانا کے خیالات
اْن کی تقریر کے بعد رانا امیر احمد خاں کی باری تھی۔ اْنہوں نے اپنی تقریر میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کیا اور شیروانی صاحب کے حوالے سے کہا کہ:
"پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا آزاد اور خودمختار ممالک ہیں۔ ان سے برابری کی سطح پر تعلقات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی خود کو سْپرپاور سمجھتا ہے اور کسی ایک ثقافت کے غلبے کی بات کرتا ہے تو اس سے یکجہتی کے جذبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔"
پاکستان کی ترقی کا خواب
دیارِ غیر میں ایسے قلندرانہ نعرے صرف رانا امیر احمد خاں ہی لگا سکتے ہیں۔ اْن کے ہاں ایک ہی جذبہ اور ایک ہی تڑپ ہے کہ پاکستان جرائم سے آزاد، کرپشن سے پاک، صاف ستھرا اور ہر قسم کی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے مزین ایک فلاحی ملک بن جائے۔ قوموں کی برادری میں اس کا نام احترام سے لیا جائے۔
اختتامی خطاب
کونسل کے ہر اجلاس کے آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے وہ جس جوش و خروش اور دردمندی سے اختتامی خطاب کرتے ہیں وہ مسئلہ کے حل کے لئے اْن کی تڑپ کا مظہر ہوتا ہے۔ اس عمر میں اْن کا جذبہ اور جوش و خروش دوسروں کے جذبوں کو تازہ اور تیز تر کرتا ہے۔ سٹیزن کونسل آف پاکستان کی روح رواں رانا امیر احمد خاں ہی ہیں۔
عزت و احترام
ان کے ساتھ جو شام منائی گئی اور اْنہیں جو "نشان اعزاز" دیا گیا، اپنی ہمہ جہت اور طویل قانونی و سماجی اور فلاحی خدمات کے ناتے بلاشبہ وہ اس کے حقدار تھے اور بجا طور پر حق بحق دار رسید ہوا۔