ڈیزل انجن کے برعکس بھاپ کے انجن کا رعب اور دبدبہ کچھ اور ہی تھا، بڑے بھی پاس جانے سے گھبراتے تھے اور بچے تو دور سے ہی دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔

مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی احتجاج کا شیڈول جاری کردیا
کتاب کی خصوصیات
قسط: 105
ٹائم ٹیبل اور کرایہ نامہ کے ساتھ ساتھ اس میں جو سب سے دلنشیں بات ہوتی تھی وہ یہ کہ اس میں نہ صرف ڈائیننگ کار کے کھانے کا ذکر ہوتا تھا بلکہ کئی صفحوں پر محیط اس کی تفصیل بھی خوب مزے لے لے کر اس طرح بیان کی جاتی تھی کہ پڑھ کر منھ میں پانی آجاتا تھا۔ تاہم ان کے سامنے لکھی ہوئی قیمتیں دیکھ کر وہ پانی واپس بھی چلا جاتا تھا، کیونکہ ڈائیننگ کار میں بنوائے گئے کسی بھی کھانے کی قیمت کم از کم 4 روپے ہوتی تھی، تاہم اس کتاب میں میرا تو سب سے پسندیدہ باب ہی وہ ہوتا تھا جو اشتہا بڑھا دیتا تھا۔ اچھے اچھے کھانوں کے بارے میں سوچ کر میں ڈائیننگ کار سے کھانے کی عام سی ٹرے منگوا لیتا تھا کیونکہ ایک وہی اپنی پہنچ میں ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: انٹراپارٹی الیکشن فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس؛آپ نے اس پوائنٹ کو پہلے کیوں نہیں اٹھایا؟چیف جسٹس پاکستان کا وکیل پی ٹی آئی کا استفسار
کتاب کی اقسام
اس کتاب میں اشتہاروں اور محکمانہ ہدایات کہ بھر مار ہوتی تھی۔ تفریح طبع کے لیے ایک دو اچھے مضامین بھی شامل کر دئیے جاتے تھے۔ تاہم بنیادی طور پر یہ ایک معلوماتی کتابچہ ہی ہوتا تھا۔ یہ چھ مہینے بعد اس وقت چھپتا تھا جب موسم کے لحاظ سے گاڑیوں کے اوقات تبدیل ہوتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیر ستان میں لیفٹیننٹ کرنل اور جوانوں کی شہادت: وزیر اعلیٰ کا سوگوار خاندانوں سے اظہار تعزیت
جدید دور کا جائزہ
زمانہ جدید میں یہ جریدہ اب پاکستان ریلوے کی ائیر بک کے نام سے نکلتا ہے لیکن اب اس میں محکمے والوں نے اپنی ہی ڈینگیں ماری ہوئی ہوتی ہیں اور اس میں وہ قورمے، بریانی اور فیرنی کی چاشنی کہاں۔ یہاں تو اب نمبروں اور حساب کتاب کی کہانیاں ہی نظر آتی ہیں جو عام مسافر کے تو سر کے اوپر سے ہی گزر جاتی ہیں۔ زیادتی کی انتہا یہ کہ اس میں سے کھانے کی تفصیل والا باب ہی غائب کر دیا گیا ہے جو کبھی کبھی مسافروں کو لبھایا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈھاکہ میں زلزلے کے جھٹکے
پلیٹ فارم کی مصروفیات
قصہ کوتاہ، اب ہم دوبارہ پلیٹ فارم کا رخ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں اور کیا کچھ ہو رہا ہے۔ گاڑی رکنے پر کچھ خوفزدہ سے مسافر تو نیچے ڈبے کے دروازے کے ساتھ ہی لگ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، انھیں ہر لمحے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے اگر وہ یہاں سے ہٹ کر ذرا سا بھی ادھر اْدھر ہوئے تو کہیں گاڑی انھیں چھوڑ کر نکل ہی نہ جائے۔ البتہ جی دار لوگ تو پلیٹ فارم پرچہل قدمی کرتے ہوئے بغیر کسی وجہ کے انجن یا گاڑی کے سب سے آخری ڈبے تک جا کر واپس آجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شہزاد رائے نے اپنی اصل عمر بتا کر سب کو حیران کردیا
ماضی کے انجن کا دلچسپ ذکر
آج کل کے ڈیزل انجن کے برعکس، جب بھاپ کے انجن چلتے تھے تو اس کا رعب اور دبدبہ کچھ اور ہی ہوتا تھا۔ بڑے بھی اس کے پاس جانے سے گھبراتے تھے اور بچے تو اسے دور سے ہی دیکھ کر باقاعدہ ڈر جاتے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی تو اس کو دیکھ کر اس قدر خوفزدہ ہو گیا تھا کہ وہ بیت الخلا میں جا کر چھپ گیا اور بڑی تگ و دو کے بعد اس کو وہاں سے برآمد کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی مسیحیوں نے دبئی میں “کرسمس ڈے” منایا
نئی نسل کی مہم جوئی
تاہم جو بہادر بچے باپ کا ہاتھ پکڑے وہاں تک پہنچ جاتے تو ان کو انجن والے بابا جی اور ان کے فائرمین سے، جو اس وقت کوئلے کی کالک سے بھوت بنے ہوتے تھے، ضرور ملوایا جاتا تھا۔
روانگی کا وقت
اس سے پہلے کہ انجن سیٹی بجا کر روانگی کا عندیہ دے، پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے لوگ تیز تیز قدموں سے اپنے ڈبوں میں واپس آجاتے۔ کچھ من چلے تو آخری وقت تک پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرتے رہتے حتیٰ کہ گاڑی چل پڑتی اور وہ اس کے ساتھ ساتھ ہی دوڑتے ہوئے چھلانگ لگا کر اپنے ڈبے میں سوار ہوجاتے۔ پتہ نہیں وہ اپنی اس شوخی سے کس کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔